کورٹ میں تیندوا !

جنگلوں کے کٹنے سے تیندو¿ں کا آس پا س کے رہائشی علاقو ںمیں گھس آنا کوئی نئی بات نہیں رہی لیکن پچھلے دنوں غازی آباد کی ضلع عدالت کمپلیکس میں ایک تیندوا نے کچھ لوگوں کو جس طرح سے زخمی کیا وہ ضرور چونکانے والا معاملہ اور غیر منظم طریقے سے شہروں کی طرف توجہ مر کوز کراتا ہے ۔ غازی آباد ضلع عدالت میں لگے سی سی ٹی وی فوٹیج سے جانکاری ملی کے تیندوا کورٹ کمپلیکس میں منگلوا ر رات 2:30بجے آگیا تھا۔وہاں پی اے سی کیمپ کی طرف سے سیڑھیوں پر اوپر چڑھتا چلا گیا اور چھت پر جانے کا دروارہ بند ہونے سے واپس تیسری منبرل پر گیلری میں چکر لگانے کے بعد پھر بالائی سیڑھیوں پر جاکر بیٹھ گیا۔ بدھوار کو شام 3:58بجے اپر چیف جوڈیشل مجسٹریٹ عدالت میں کام کرنے والے کلر ک اور کانسٹبل سیڑھیاں چڑھ کر اوپر گئے اس دوران دونوں کو دیکھتے ہی تیندوے نے ان پر جھپٹا اور ان کے سر کے اوپر سے گزر گیا ۔ سیڑھیوں سے نیچے آنے کے ساتھ ہی وہ لوگوں پر حملہ آور ہو گیا۔ کورٹ منتظم منوج کمار مشرا کے مطابق عدالت میں لگے سی سی ٹی وی کیمرے میں 2:30بجے عدالت کمپلیکس میں تیندوا آتا ہوا دکھائی دیا۔ پی اے سی کیمپ کے سامنے بنی سیڑھیوںکا شٹر کھلا رہتا ہے چونکہ ہر وقت وہاں پے اے سی کا پہرا رہتا ہے۔ تیندو ا پی اے سی کے جوانوں کی طرف نہیں گیا وہ سیدھے سیڑھیوں کے راستے اوپر چلا گیا ۔ کورٹ انتظامیہ نے بتایا کہ سی سی ٹی وی انچارج کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ صبح عدالت میں آنے کے بعد رات کی پوری سرگرمیوں سے معاملے کی جانچ کریں۔ عدالت میں افراتفری پھیل گئی اور کورٹ سیل کا دروازہ بند کر دئے جانے پر تیندوے نے غصے میں کھڑکی پر حملہ بولا جس کا شیشہ ٹوٹنے سے اس کا پنجہ لہو لہان ہو گیا ۔پچھلے دو تین برسوںمیں غازی آباد اور اس کے آس پاس کے رہائشی علاقوںمیں کئی بار تیندوے دیکھے گئے ہیں جس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ لاک ڈاو¿ن کے دوران سہارنپور رینو سے لونی تک گنجان جنگلی علاقہ ہے ۔غازی آباد میں مادہ تیندوے نے کھس کر یہاں بچے کو جنم دیا ہوگا۔ پچھلے ہی مہینے موج پور میں دہلی -میرٹھ اسکپریس وے پر گاڑی کے نیچے آنے سے تیندوے کی موت ہو گئی تھی۔ جنگلی جانووں کے جنگلوں میں پناگاہ چھننے کے سبب تیندوے شہری علاقوںمیں کھانے کی تلاش میں آجاتے ہیں۔تو لوگ شکار ہوتے ہیں یا خود شکار ہوجاتے ہیں ۔جیسا کہ غازی آباد کی عدالت میں دیکھا گیا۔ یہ بد قسمتی ہے کہ لمبے عرصے سے تیندوے کے انسانی آبادی میں کھس آنے اور آپسی ٹکراو¿ کے باوجود اس کا حل نکالنے کیلئے سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟