اس بمپر جیت کا 2024کے عام چناو ¿ پر کیا اثر ہوگا؟

گجرات میں جیت کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریر میں آنے والے سال 2024میں ہونے والے عام چناو¿ کی تیاریوں کی جھلک دیکھنے کو ملی ۔ انہوںنے ابھی سے چناو¿ کمپین شروع کردی ہے اور جس طرح سے ورکروں سے بات کی اور ان کو سراہا اس سے لگتا ہے کہ 2024میں کیا ہونے جا رہا ہے اور مودی ابھی سے مورچہ بندی کررہے ہیں ۔ہندوستانی جمہوریت میں اقتدار سنبھال رہے نیتا ہمیشہ سرکار مخالف لہر سے ڈرے رہتے ہیں لیکن بی جے پی نے گجرات میں 27سال کی سرکارچلانے کے بعداگلے 5سال کیلئے بھی ریکارڈ توڑ کامیابی حاصل کی ہے ۔ اور ثابت کردیا ہے کہ ابھی بھارت میں بھاجپاہی سب سے بڑی سیاسی طاقت ہے اور اگلے کچھ برسوں تک اقتدار میں رہنے کا ارادہ رکھتی ہے بلکہ تیار بھی ہے ۔وزیر اعظم نریندرمودی مسلسل 12سال گجرات میں اقتدار سنبھالنے کے بعد دہلی آئے تھے اور وہ پچھلے 8برسوں سے بھارت کے وزیر اعظم ہیں اور ان کی قیادت میں کئی چناو¿ جیتے ہیں ۔ کورونا وبا کے بعد بی جے پی نے سب سے اہم ریاستوں میں سے ایک اترپردیش میں بھاری اکثریت سے چناو¿ جیتا اور آسام ،گجرات اورگوا میں بھی سرکاریں بنائیں۔انہوں نے اپنے نام پر ووٹ مانگے اور ایک طرح سے وہ گجرات کو اپنا جانشین کی شکل میں پیش کرتے رہے ہیں۔ اور ہندوستانی سیاست میں گجرات کی زبردست جیت کو ہندوستانی سیاست میں برانڈ مودی کے اور مضبوط ہونے کی شکل میں بھی دیکھا جا رہا ہے ۔ اب یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ گجرات دہلی ،ہماچل پردیش کے نتیجے آنے والے 2024کے لوک سبھا چناو¿ پر اثر انداز ہو سکتے ہیں؟ کیا ان نتیجوں کی وجہ سے اپوزیشن پارٹیوں کو اپنی حکمت عملی بدلنی پڑ سکتی ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے گجرات میں 30سے زیادہ ریلیاں کیں بار بار گجرات کو اپنے آپ سے جوڑا اور انہوںنے گجرات کی وقار کی بات کی ۔اور ووٹروں سے خود پر اور بی جے پی پر بھروسہ کرنے کی اپیل کی ۔ گجرات چناو¿ کے دوران بی جے پی نے ہندوتو کی اپنی سیاست پر زور دیا ۔ بی جے پی کے اسٹار کمپینروں کے نشانے پر مسلمان رہے سیاسی مبصر مانتے ہیں کہ بی جے پی ہندوتو کی اپنی آئیڈیولوجی کو تو ظاہر کرتی ہے لیکن وہ صرف ہندوتو کے نام پر ہی ووٹ نہیں مانگتی بلکہ اپنے اشوز کے ذریعے بھی لوگوں کو اپنی طرف کھیچ رہی ہے ۔ اس بار عورتوں نے بھی کھل کر بھاجپا کا ساتھ دیا ۔یہ کہنا غلط ہے کہ بی جے پی صرف ہندوتو کی حکمت عملی پر چناو¿ لڑ رہی ہے ۔وہ بجلی ،پانی جیسے بنیادی اشوز کو بھی اٹھا رہی ہے سب سے زیادہ کامیاب وہیں اسکیمیں ہیں جو ان اشوز کے ارد گرد ہیں اور ان کا فائدہ اٹھانے والا طبقہ بی جے پی کے ساتھ جڑاہوا محسوس کرتا ہے ۔بی جے پی کو صرف ہندوتو کے دم پر نہیں بلکہ کام کے دم پر کامیابی ملی ہے۔ چناو¿ کا اشوز کا اثر پڑتا ہے اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہماچل میں سرکار نہیں بدلتی ۔ دہلی ایم سی ڈی میں عام آدمی پارٹی کو اتنی شاندار کامیابی نہیں ملتی ۔ عام آدمی کے درمیان پارٹی کا بھروسہ انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟