سوشل میڈیا پر لگام کیسے لگے؟

سوشل میڈیا کے بڑھتے بے جا استعمال پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ یہ خطرناک سطح پر پہنچ گیا ہے انٹرنیٹ کے لئے نہیں دیش کو لے کر فکر مند ہونا چاہیے مقدمہ کچھ افراد کی طرف سے داخل عرضی پر جسٹس دیپک گپتا،جسٹس انیرد بوس،کی بنچ معاملے پر سماعت کر رہی ہے ۔جج گپتا صاحب کا کہنا تھا کہ ابھی یہ عالم ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعہ لوگ آدھے گھنٹے میں AK47رائیفل بھی خرید سکتے ہیں ۔یہاں تک کہ وہ اسمارٹ فون منگانے کی سوچ رہے ہیں سوشل میڈیا(فیس بک،وائسٹ ایپ)آج مضبوط ذریعہ بن گئے ہیں اور آج کے وقت میں اس کونظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔اس کی بے شمار طاقت کی وجہ سے سائنس کی طرح کچھ لوگ اسے وردان مانتے ہیں تو کچھ ایک ناسور ۔پچھلی سماعت کے دوران عدالت نے سرکار سے پوچھا تھا کہ کیا وہ سوشل میڈیا کو آدھار سے جوڑنے کے کسی پلان پر کام کر رہی ہے ؟اس بار اس نے سرکار کو اس سلسلہ میں تین ہفتے کے اندر سخت گائڈ لائنس تیار کرنے کے لئے تین ہفتے میں ضابطہ قواعد بنانے کو کہا ہے ۔یہ بہت خطرناک صورتحال ہے ۔سوشل میڈیا پر ٹرولنگ ،کردار کشی ،افواہ اور فرضی خبروں کا سیلاب ہے وائسٹ ایپ پر بچہ چوری کی فرضی اطلاعات کی بنیاد پر دیش بھر میں لوگوں کی پٹائی اور قتل تک کر دینے کے واقعات کو انجام دے رہے ہیں ۔اس بد امنی کی ایک مثا ل ہے عدالت نے کردار کشی افواہ پھیلانے اور فرضی خبروں جیسے مسئلوں پر غور کرنے کی نصیحت مرکزی حکومت کو دی ہے ۔عدالت کے اس ریمارکس کے اس معنی میں اہم ہے کہ اس نے واضح طور پر سرکار سے کہا کہ پالیسی بناتے وقت پرائیویسی اور دیش کی سرداری کا خیال رکھا جانا چاہیے ۔عدالت نے کہا کہ یہ قومی سلامتی دہشتگردی او اطفال استحصال سے وابسطہ معاملہ ہے ۔عدالت نے کہا کہ ایسا کرنے والوں کی پہنچان کرنے کے لئے تکینک ڈیبلپ کی جائے ۔عدالت کا کہنا تھا کہ کچھ سوشل میڈیا یہ پتہ نہیں لگا پا رہی کہ ہے کسی میسج یا آن لائن مواد کا سورس کیا ہے ؟سرکار کو اس میں دخل دینے کی ضرورت ہے آخر سرکار یہ کیوں نہیں پوچھ سکتی کہ ایسے میں قابل اعتراض مواد کی سروعات کس نے کی ؟آج یہ کہہ کر نہیں بچ سکتے آج یہ تکنیک نہیں ہے ۔بنچ نے کہا کہ سرکار جب اس معاملے میں گائڈ لائنس بنائے تو لوگوں کے پرایوسی کے حق او ر اس کی ساکھ اور دیش کی سرداری کا دھیان رکھیں دیکھنا یہ ہے کہ 22اکتوبر کو اگلی سماعت میں مرکزی سرکار پالیسی بنانے کی معیاد کا اعلان کرتی ہے یا نہیں امید کی جانی چاہیے کہ سرکار ایک ٹھوس پالیسی لے کر آگے گی یا نہیں ؟

(انل نریندر) 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!