ماب لنچنگ کے بڑھتے واقعات !

جھارکھنڈ کے سرائے کیلا ۔کھرساو ¿اں ضلع میں بھیڑ نے ایک شخص تبریز انصار ی کو کھمبے سے باندھ کر پیٹا موٹر سائیکل چورے کی شبہ میں مار پیٹ کرتے ہوئے بھیڑ نے اسے جے شری رام اور جے ہنومان کے نعرے لگانے کو مجبور کیا پولیس نے اس جونوجوان کو اسپتال پہچانے کے بجائے حوالات میں ڈال دیا بے چینی کی شکایت پر مار پیٹ کے چوتھے دن اسپتال میں داخل کرایا گیا لیکن پانچوےں دن اس کی موت ہوگئی ۔معاملہ پیر کے روز پارلیمنٹ میں گونجا تو حکومت نے دوتھانہ انچارجوں کو معطل کردیا او راے ڈی ایس پی کی سربراہی میں جانچ کے لئے ایس آئی ٹی بنادی اب تک 8ملزم گرفتار ہوگئے ہیں ۔اس وار دات کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے جھارکھنڈ کے مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے گھناو ¿نے جرم قرادیتے ہوئے یہ صحیح کہاکہ لوگوں کو پیٹ کر نہیں بلکہ گلے لگاکر شری رام کا جے کار کرائی جاسکتی ہے جس طرح بھیڑ نے تبریز کو پیٹ پیٹ کر ادھ مرا کیا ٹھیک نہیں کیا ۔چوری کے مبینہ جرم پر شخص کو ادھ مراکرنا قانون سے کھلواڑ جیسا اور اس پر پولیس کا رویہ دیکھئے کے اسے تبریز کو ہسپتال پہنچانا چاہئے تھا یا حوالات میں زخمی حالات میں ڈال دینا ؟تبریز کے قتل کا ذمہ دار کون ہے یہ بد امنی کے ننگے مظاہرہ کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔یہ سبھی کےلئے پریشانی کی بات ہونی چاہئے کہ بھیڑ کے تشدد کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں جن میں قانون وانتظام کو ٹھینگادکھایا جاتاہے ۔ہمارے سماج میں تشدد اتنا بڑھ گیا کہ اب تو پولیس ،ڈاکٹر اور دیگر سرکاری غیر سرکاری لوگ بھی بھیڑ کے تشدد کا شکار بننے لگے ہیں۔اس طرح کے واقعات ماب لنچنگ یہی بتاتے ہےں کہ ایسا کرنے والے عناصر کو ناتو پولیس کا ڈر ہے نا انتظامیہ حکومت کا ۔سرکار پر انہیں سرپرستی دینے کا الزام بھی آئے دن لگتے رہتے ہیں ۔قانون اپنے ہاتھ میں لیکر ان بد امن عناصر کو ایسا کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جاسکتی کیونکہ ایسے برتاو ¿ دیش میں امن ونظام کو چیلنج دینے کے ساتھ ہی دیش کی بین الا قوامی سطح پر بد نامی ہوتی ہے یہ مرکز اور ریاستی حکومتوں کا فرض بنتا ہے کہ ایسی بھیڑ کے تشدد کو ہر حالت میں روکے ۔ان بد امن عناصر کسی طرح کی سرپرستی نہیں ملنی چاہےئے انہیں یہ بھی صاف بتانا ہوگا کہ اگر آپ قانو ن کو اپنے ہاتھ میں لیںگے تو سرکار سخت قدم اٹھائے گی تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ پولیس ،انتظامیہ ان بد امن پسند عناصر سے ہمددردی رکھتا ہے اور نرم بھی دکھاتا ہے کیا پولیس اس بات کا جواب دے سکتی ہے کہ ادھ مری حالت میں تبریز کو ہسپتال پہنچانا چاہئے تھا یا حوالات میں ڈالنا چاہئے تھا ۔شکار ہوا شخص اقلیتی طبقہ کا ہوتو معاملہ اور تشویش ناک بن جاتا ہے کوئی مہذب سماج ایسی حرکتوں کی حمایت نہیں کرتا قصو ر واروں کوپکڑ ا بھی جائے اور قانون کے مطابق سخت سزا دی جائے ۔

(انل نریندر )

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!