بری طرح پھنسی مودی سرکار،ادھر کنواں اُدھر کھائی!

رافیل جنگی سودے سے مچے طوفان کی آگ کی گرماہٹ اب مرکزی سرکاراور دیش کی سپریم جانچ ایجنسی سی بی آئی کو لگنے لگی ہے۔ایک طرف تو سپریم کورٹ نے 15سال پہلے بند ہو چکے بو فرس معاملہ کی پھر سے چانچ سے صاف انکار کر دیا ہے وہیں عدالت نے رافیل جنگی جہاز کی قیمت اور آفسیٹ سے متعلق عرضیوں پر عدالت نے جو رویہ اپنایا ہے اس سے ممکنہ طور پہ حکومت کو احساس ہو گیا کہ عدالت معاملہ کو اس شکل میں نہیں لے رہی ہے جیسا کہ وہ چاہتی ہے۔سپریم کور ٹ نے سرکار سے دس دنوں کے اندر سیل بند لفافے میں 36رافیل جنگی جہاز کی قیمت بتانے کو کہا ہے۔ساتھ ہی سودے سے جڑے ہندوستانی آفسیٹ ساجھے دار کی پوری تفصیل کورٹ اور عرضی گزاروں کو مہیا کرانے کہ ہدایت دی ہے۔حالانکہ عدالت نے صاف کہہ دیا ہے کہ عرضی گزاروں کو وہی جانکاری دی جائے جنہیں جائز طریقہ سے عام کیا جا سکتا ہے۔چیف جسٹس رنجن گوگوئی،جسٹس یویو للت اور جسٹس کے ایم جوزف کی بنچ نے حکومت کو فرانس سے خریدے جا رہے جنگی جہاز کی قیمت بتانے کو کہا ۔اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپا ل نے کہا کہ رافیل کی قیمت کو پارلیمنٹ سے بھی شیئر نہیں گیا ہے۔انہوں نے کہا کچھ معلومات راز قانون کے دائرے میں آتی ہیں اس لئے انہیں جنتا کے سامنے نہیں بتایا جا سکتا ۔اس پر بنچ نے کہا کہ وہ قیمت نہیں بتانا چاہتے تو وہ حلف نامہ داخل کریں کورٹ نے سرکار سے کہا کہ خفگی اور سیاسی اہمیت جانکاری کو چھوڑ کر سودے پر فیصلہ کارروائی کی تفصیل کو پبلک کرئے اس معاملے کہ سماعت دیوالی کے بعد 11نومبر سے شروع ہوگی۔سماعت کے دوران عرضی گزار وکیل ایم ایل شرما نے عدالت سے درخواست کی کہ 5ریاستوں میں اسمبلی چنائو ہونے والے ہیں ۔لہذا سماعت چنائو تک کے لئے ٹال دی جائے اس پر بنچ نے کہا کہ چنائو سے ہمارا کیا لینا دینا۔کہاں چنائو ہو رہے ہیں ۔اس لئے عدالت کو سماعت کو روک دینی چاہئے؟ہمارے لئے یہ تو محض ایک مقدمہ ہے۔سرکار کو حلف نامے کے ذریعہ قیمت کے راز کو بتانا مشکل ہوگا۔کیونکہ سابق وزیر دفاع منوہر پریکر نے پہلے کہا تھا کہ 120جنگی جہازوں کی قیمت 90ہزار کروڑ روپئے ہوگی۔اس طرح ایک جہاز کی قیمت 715کروڑ روپئے ہوتی ہے۔وزیر مملکت دفاع نے پارلیمنٹ میں اس کی قیمت 670کروڑ بتائی تھی۔جبکہ فرانس کی کمپنی داسالٹ نے اپنی سالانہ روپورٹ میں دام 1670کروڑ روپئے بتائے تھے۔کورٹ نے اس معاملے میں 4عرضیوں پر سماعت کر رہی ہے۔جس میں ایک عرضی وکیل پرشانت بھوشن ،یسونت سنہااور ارن شوری کی بھی ہے،تینوں نے کورٹ کی نگرانی میں اس معاملے کے جانچ سی بی آئی سے کرانے کی درخواست کی ہے۔اس پر بنچ نے کہا پہلے سی بی آئی اپنا گھر تو ٹھیک کرئے۔فرانس کی داسالٹ کمپنی کے ساتھ ہوئے جنگی جہازوں کی خرید کے معاہدے پر مسلسل سوال اُٹھ رہے ہیں۔کانگریسی لیڈر راہل گاندھی نے کہا کہ رافیل سودا وزیر اعظم اور صنعت کار انل امبانی کی ساجھے داری ہے۔راہل نے داسالٹ کمپنی کے افسر پر جھوٹ بولنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ کمپنی نے نقصان میں چل رہی انل امبانی کی کمپنی کو 284کروڑ روپئے دیے تھے۔رافیل گھوٹالے میں کرپشن کے یہ واضح ثبوت ہیں۔دا سالٹ نے اس پیسے کے لین دین پر مہر بھی لگا دی ہے۔راہل گاندھی نے بتایا فرانس کے صدر نے انہیں بتایا کہ رافیل جنگی جہاز کی قیمت کو راز میں رکھنا سودے کا حصہ نہیں تھا۔راہل گاندھی کا کہنا ہے کہ اگر وزیر اعظم ایماندار ہوتے تو خود سے رافیل کی جانچ کو تیار ہو جاتے۔اور وزیر اعظم کو سامنے آکراس سودے کے بارے میں سچائی بتانی ہوگی۔یہ تو جب ہی پتہ چلے گا تب ہی سپریم کورٹ میں مقدمہ کی سماعت چلے گی۔لیکن اتنا تو طے ہے کہ رافیل جنگی جہاز سودے میں آفسیٹ پارٹنر کی حیثیت سے انل امبانی کی کمپنی شامل ہے اگر سرکاریں دس دن میں معلومات عرضی گزاروںکو نہیں دیتیں تو اس کی بھی وضاحت کرنی ہوگی۔اس طرح حکومت کے سامنے جب صورت حال کھڑی ہو گئی ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں کو جواب دنیا آسان نہیں ہے۔عدالت کی اس بارے میں منفی رائے سیاسی طور سے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔سرکار کے سامنے رافیل جنگی جہاز سودا اب اپوزیشن کے ساتھ ساتھ عدالت میں ہونے والی سماعت سے پیدا چنوتیوں سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی بنانے کی حالت پیدا ہو گئی ہے۔رافیل سیاسی اور قانونی مورچہ بندی اتنی بڑھ گئی ہے اس کو تب نہیں روکا جا سکتا جب تک عدالت اس پر قطعی رائے نہیں دے دیتی ۔سرکار کی مشکل یہ بھی ہے کہ پانچ ریاستوں کے اسمبلی چنائو سر پر ہیں ۔کانگریس اور اپوزیشن پارٹیاں بھی اس میں سیاسی فائدہ دیکھ رہی ہیں ۔کانگریس کا جہاں تک سوال ہے وہ سرکار سے بو فرس سودے کا بدلہ لینا چاہتی ہے اس لئے وہ ثابت کرنے پر تلی ہے کہ اگر ہم بد عنوان تھے۔تو تم بھی دودھ کے دھلے نہیں ۔اس حمام میں ہم دونوں میں ننگے ہیں۔یہ سرکار کہتی ہے کہ ہم کھائیں نہ کھانے دیں گے۔رافیل جنگی سودے میں یہ بات غلط ثابت ہونے کا امکان ہے۔اس لئے پردھان منتری نریندر مودی کو اپنے ساکھ پر حملہ لگتا ہے۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!