پاک چیف جسٹس:ہم جج صرف مسلمانوں کے نہیں ہیں!
پاکستان میں بدھ کے روز سپریم کورٹ نے ایش نندا معاملے میں عیسائی خاتون آسیہ بی بی کو بری کر دیا ۔اس کے بعد ہی پورے دیش میں تشدد اور مظاہروں کا دور شروع ہو گیا۔کٹر پسند تنظیموں کے لیڈر سڑکوں پر آگئے اور چیف جسٹس کے خلاف مظاہرے کرنے لگے۔کئی مقامات پر آگ لگانے کے واقعات ہوئے۔ لاہور، کراچی، پیشاور ،فیصل آباد سمیت دس بڑے شہروں میں پولس نے دفعہ 144لگا دی ہے۔کئی شہروں میں موبائل سروس بھی بند کر دی گئی۔پنجاب صوبہ میں ہائی الرٹ اعلان کر دیا گیا۔دس نومبر تک ریلی کرنے پر بھی روک لگا دی گئی ہے۔کچھ ریاستوں میں اسکول اور ٹرین سروس بھی بند کی گئی ۔کٹر پسندوں کا کہنا ہے کہ جج اور فوج کے چیف مسلمان ہی نہیں ہیں۔حالات اتنے خراب ہو گئے کہ وزیراعظم عمران خان کو سامنے آنا پڑا انہوں نے کہا جج صاحبان نے جو فیصلہ دیا ہے وہ شرعی قانون کے مطابق ہے اسے سبھی کو تسلیم کرنا چاہئے۔انہوں نے تشدد برپا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی وارنگ بھی دی ہے۔توہین مذہب کا معاملہ 2010کا ہے۔چار بچوں کی ماں آسیہ کا مسلم پڑسیوں سے جھگڑا ہو گیا تھا۔آسیہ کی غلطی صرف اتنی تھی کہ اس نے کوئیں کے پاس مسلم خاتون کے لئے رکھے گلاس سے پانی پی لیا۔تب مسلمانوں نے کہا کہ گلاس جھوٹا ہو گیا۔آسیہ انہیں سمجھانے لگی کہ عیسا مسیح اور پیغمبر محمدؐ کا موازنہ کر دیااور اس کے بعد پڑسیوں نے ان پر توہین مذہب قانون کے تحت مقدمہ درج کر دیا ۔1860میں برطانوی حکومت نے مذہب سے جڑے جرائم کے لئے یہ قانون بنایا تھا۔تب اس قانون کا مقصد مذہبی تشدد کو روکنا تھا۔1982میں ڈیکٹیٹر ضیاء الحق نے ایش نند ا قانون کو نافذ کیا تھا۔پی پی سی نے 245بی جوڑ کر یہ قانون بنایا۔جمعرات کو پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ اگر کسی کے خلاف لگے الزام کورٹ میں ثابت نہیں ہوتے ہیں۔تو کورٹ اس شخص کو سزا کیسے دے سکتی ہے۔میں اور بینچ کے جج پیغمبرؐکو پیار کرتے ہیں۔ہم ان کے احترام میں قربانی دینے کو تیار ہیں۔لیکن ہم صرف مسلمانوں کے جج نہیں ہیں۔ ہم سبھی کو برابر انصاف دیتے ہیں۔بتا دیں کہ جنرل ضیاء الحق نے 1982میں قانون میں ترمیم کر قرآن کی دفعہ 295سی جوڑی گئی اور پیغمبر محمدؐ کی بے عزتی پر عمر قید یا موت کی سزا کی سہولت شامل کی گئی ۔یہ قانون 71ملکوں میں موجودہے۔2011میں پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاسیر کو ان کے گارڈ نے قتل کر دیا تھا۔سلمان نے آسیہ کی رہائی کی وکالت کی تھی۔بعد میں وزیر اقلیتی امور شہباز بھٹی کو قتل کر دیا گیا۔بھٹی کا تعلق عیسائی مذہب سے تھا۔1986سے پہلے پاکستان میں توہین مذہب کے معاملے ہوتے تھے۔1927سے 1985تک صرف 58معاملے عدالت میں آئے لیکن اس کے بعد سے 4ہزار سے زیادہ معاملے عدالت پہنچے ہیں۔حالانکہ توہین مذہب کے معاملہ میں ابھی تک کسی کو پھانسی نہیں دی گئی۔زیادہ تر کی موت کی سزا معاف ہو گئی اور رہا ہونے کے بعد آسیہ بی بی نے کہا کہ اس بات پر بھروسہ نہیں کر پا رہی ہوں کہ مجھے آزادی مل گئی ہے۔اس دیش میں ہماری زندگی بہت مشکلوں سے گذری ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں