تین چوتھائی خواتین سنیٹری نیپکین سے دور ہیں

جدیدیت واطلاعات کے تما م متبالوں کے باجود دیش کی تین چوتھائی سے زیادہ تقریبًا 82فیصد عورتیں سینٹری نیپکین کا استعمال نہیں کرتی ۔اور آج بھی ماہواری کے دوران پرانے طور طریقے اپناتی ہیں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سینٹری نیپکین کا استعمال کرنے والی باقی عورتیں بھی پروڈکٹ کے استعمال کو لیکر بید ار نہیں ہیں ۔ دونوں ہی چیزوں کے بارے میں غور کیا جائے تو اس کی اہم وجہ یہی سامنے آتی ہے زیادہ تر عورتیں اس سلسلے میں کھل کر بحث نہیں کرتی اور غیر محفوظ متبادل اپنانے پر مجبو رہتی ہیں ۔اس کا نتیجہ ان کے پیشاب اور بچہ دانی والے حصہ میں انفکشن کے علاوہ ذہنی کشید گی اور بے چینی کی شکل میں آتا ہے ۔حال ہی میں ذہنی ماہواری سوچھتا دوس کا انعقاد ہوا ۔اسکے دوران ایک اہم ترین پانچ سالہ اسکیم بنائی گئی اور اس تحریک کو دہلی میں شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔اس تحریک کو مشہور فلم اداکار اکشے کما رنے بھی اپنی سپوٹ دی ان کی حا ل ہی میں ایوارڈ یافتہ فلم پیڈ مین میں ماہواری سے وابستہ غلط تصورات اور مسائل پر روشنی ڈالی گئی ۔سمپوزیم میں شامل ماہواری سے وابستہ ان غلط فہمیوں پر مباحثہ ہوا جن کے سبب صدیوں سے لڑکیوں اور عورتوں کو ان کی صلاحیت کے صحیح استعمال او رماہواری کے دوران وقار زندگی بسر کرنے سے دور رکھا جا تا رہا ۔ایک خاتون نے کہا مجھے امید ہے کہ ہم ہر شخص کے نائٹ موومنٹ میں کے سا تھ جوڑ نے کیلئے راغب کرسکیں گے اور سبھی مل کر اس سمت میں ایک بڑی تبدیلی لاسکتے ہیں ۔مسٹر تلسیان کا کہنا ہے کہ اس تحریک کا مقصد لڑکیوں او رعورتوں کو ماہواری کے دوران ہائی جینک چیزوں کے استعمال کا بڑھا وا دینے کیلئے حوصلہ افزائی کرنا ہے تاکہ اس نقطہ نظر سے ایک کھلا ماحول بنایا جاسکے ۔دیہی علاقوں میں آج بھی لڑکیاں اور عورتیں ماہواری میں غلط چیزوں کا استعمال کرتی ہیں جس سے ان کی صحت پر اثر پڑتا ہے ۔صحیح چیزوں کااستعمال کے فروخ ہونا چاہئے اور ذاتی کوشش تو ٹھیک ہے لیکن مسئلہ انتا بڑا ہے کہ سرکار سمیت سبھی کو اسے ٹھیک کرنے کی سخت ضرورت ہے ۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!