ٹرمپ اور ایرانی صدر روحانی آمنے سامنے
ایران کے نیوکلیائی پروگرام کو لیکر کچھ عرصے سے امریکہ اور ایران میں ٹکراؤ جاری ہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کبھی تو سختی کی بات کرتے ہیں او رکبھی نرمی کی ۔دراصل ٹرمپ نے اپنی چناؤ مہم کے دوران ایران کے ساتھ ہوئے نیوکلیا ئی معاہدے کو بے فضول قرار دیتے ہوئے اسے منسوخ کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔اور اسی سال مئی اس معاہدے سے اپنے دیش کو الگ کردیاتھا اور ایران پر پابندیاں عائد کردی تھی۔ فرانس ،برطانیہ ،روس اور چین بھی اس معاہدے میں شامل رہے ہیں امریکہ دوست ممالک نے ٹرمپ کو اس معاہدے سے الگ نہ ہونے کیلئے دباؤ بھی ڈالاتھا لیکن ٹرمپ نے کسی کی نہیں سنی ۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ امریکہ ایک بڑی طاقت ہے لہذا جھوٹے دیش اس کے سامنے مخالف نہیں کرپاتے ۔ایران کو برباد کرنی دھمکی دینے کے بعد اب یکطرفہ طور پر صدر ٹرمپ کے موقف میں نرمی آگئی ہے ۔اپنے غیر سنجیدہ مزاج کے مطابق عمل کرتے ہوئے ایران کے تئیں اپنا موقف نرم کرنے کے تازہ اشارے دئے ہیں اب انھوں نے راتوں رات ایرانی صدر حسن روحانی سے بلاشرط بات چیت کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے ۔حالانکہ وہائٹ ہاؤ س میں یہ بھی اشارہ دیا ہے کہ بھلے ہی صدر ٹرمپ نے ایرانی صدر سے ملنے کی خواہش ظاہر کی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ امریکی ایران پر لگی پابندیوں کو نرم کرے گا ۔یا دونوں دیشوں کے درمیان سفارتی یاکاروباری رشتے پھر سے قائم ہونگے ادھر ٹرمپ کی بلا شرط ملاقات کی تجویز کو ایرانی لیڈروں وفوجی کمانڈوں نے مسترد کردیا ہے ۔ٹرمپ کے قول وفعل میں فرق ہونے کا الزام لگاتے ہوئے اس امکانی ملاقات کو محض سپنا بتایا او رکہا امریکی صدر کا 2015میں ہوا نیوکلیائی سمجھوتا توڑنا غیر قانونی فیصلہ رہا ۔ایران کے وزیر خارجہ جواد شریف نے ٹیویٹ کیا کہ تہران سے بات چیت ختم کرنے کیلئے امریکہ کو خود ذمہ دار ہے ۔اور ایرانی فوج کے چیف نے بھی کہا کہ ہم نارتھ کوریا نہیں ہے کہ جو ٹرمپ کی پیش کش کو قبول کرلیں اور نئے سرے سے بات چیت کیلئے ایران پر دباؤ ڈالنے والے ٹرمپ کے اس قدم نے دیش کے کٹر پسندوں اور اصلاح پسندوں کو ایک طرح سے متحد کردیا ہے ۔در اصل ایران کو بر باد کرنے کی دھمکی دینے کے بعد صدر ٹرمپ کے موقف میں آئی نرمی بھی ایران پر دباؤ ڈالنے کی ڈپلومیسی کا حصہ لگتی ہے ۔حقیقت میں امریکہ ایران پر نئے سرے سے نیوکلیائی معاہدہ کرنے کا دباؤ بنارہا ہے ۔ایران کا موقف صاف ہے پہلے امریکہ نیوکلیائی معاہدہ کو قبول کرے پھر بات چیت ہوگی ۔امید کی جاتی ہے کہ تعطل جلد ختم ہو تو او ردونوں دیشوں میں سمجھوتا ہوگا ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں