مسئلہ ہندو مسلمان کا نہیں ،سوال ان ناجائز بنگلہ دیشیوں کا ہے

آسام میں 40لاکھ لوگوں کو این سی آر سے باہر رکھنے پر سیاسی جنگ تیز ہوگئی ہے ۔سرکار کے خلاف سب سے زیادہ ناراض رہیں مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی نے اس سے دیش میں خوفناک نتائج تک کی دھمکی دے ڈالی ۔ممتا نے جن الفاظ کا استعمال کیا وہ میں یہاں دہرانا نہیں چاہتا ۔بھاجپا صدر امت شاہ نے کہا کہ یہ ووٹ بینک نہیں دیش کی حفاظت کا معاملہ ہے ۔ممتا نے مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ سے مل کر پوچھا کے کیا مغربی بنگا ل میں ایسی ہی قواعد کرناچاہتے ہیں؟ابھی کوئی بنگال کی بات کررہا ہے پھر بہار ، مہا راشٹر ،گجرات ،اور یوپی کی بات کریں گے ۔دیش ایسے نہیں چلے گا اس سے خون خرابہ ہوگا ۔ یہ این سی آر آخر ہے کیا ؟اس کے پس منظر میں کیا ہے ؟این سی آر میں ایسے لوگوں کو ہی ہندوستانی شہری مانا جائیگا جن کے آباء واجداد کے نام 1951کے این سی آر رجسٹر میں یا 24مارچ 1971کے ووٹر لسٹ میں موجو ہے ۔اس کے علاوہ بارہ دوسری طرح کے سرٹیفکٹ جیسے برتھ سرٹیفکٹ پاس بک وغیرہ دےئے جاسکتے ہیں ۔اگر کسی دستا ویز میں اس کے کسی آباء اجدادکا نام ہے تو اسے رشتہ داری ثابت کرنی ہوگی ۔آسام دیش کا اکیلا راجیہ ہے جہاں این سی آر کا سسٹم ہے پچھلے تین سال میں ریاست کے 3.29کروڑ لوگوں نے شہریت کے لئے 6.5 کروڑدستاویز بھیجے آسام میں نیشنل رجسٹر آف سیٹینز (این سی آر )کے فائنل ڈرافٹ پر ہنگامہ مچا ہواہے کانگریس مرکز اور آسام کی حکومت پر سازش کا الزال لگارہی ہے حالانکہ سچائی یہ ہے کہ 80 دہائی میں صوبے میں ناجائز بنگلہ دیشی کے خلاف طلبہ کی پرتشدد تحریک کے دوران اس وقت وزیر اعظم راجیو گاندھی نے طلبہ انجمنوں سے اس مسئلہ سے نجات دلانے کا وعدہ کیا تھا ۔آسام طلبہ انجمنوں کی مفادعامہ کی عرضی پر سرکار کی وعدہ خلاف پر سپریم کورٹ نے سخت رخ اپناتے ہوئے ناجائز شہریوں کے پہچان کے لئے این سی آر بنانے اور 100ٹرایبونل بنا نے کے احکامات دےئے تھے ۔ اس کام میں سستی پر پچھلی یوپی اے سرکار کو بڑی عدالت سے کئی بار پھٹکا ربھی پڑی ۔2016میں ریاست میں تبدیلی اقتدار سے رجسٹر تیار کرنے کے کام میں تیزی آگئی ۔این سی آر بنانے کا کام اب بی جے پی سرکار کررہی ہے یہ کام اس نے اپنی طرف سے شروع نہیں کیا بلکہ سپریم کورٹ کے حکم پر تعمیل ہورہی ہے ۔یہ بات دیش کو سمجھنی ہوگی کہ یہاں ہندو مسلم کا سوال نہیں بلکہ مسئلہ ہندوستانی وناجائز دراندازوں کا ہے ۔بھارت کی 4ریاستوں آسام ،تریپورہ،مغربی بنگال اور بہار میں سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے ۔ بنگلہ دیشیوں کی آمد کا معاملہ دیش کی ووٹ بینک کی سیاست کی پیدوار ہے ۔ ناجائز شہریوں کا سروے نہیں کرانے کے سبب ان کی سرکاری اعداد شما ر پر اختلاف ہے ۔حالانکہ اندازے کے مطابق یہ تعداد3کروڑ ہے 1917میں بھارت پاکستان جنگ کے دوران پاکستان سے بڑی تعداد شرنارتھی بھارت آئے جنگ کے بعد بھی ان کے بھارت میں داخلے پر روک نہیں لگی ۔سرحد کھلی ہونے کے سبب یہ سلسلہ بڑھتا گیا بنگلہ دیشی آسام کے ساتھ دیگر ریاستوں میں بھی پھیل گئے ۔بعد میں سیاسی پارٹیوں نے اس آبادی کو ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا بھاجپا نے 90دہائی میں اسے سیاسی اشو بنایا 1997میں اس وقت کے وزیر داخلہ اندرجیت گپت نے پارلیمنٹ میں 1کروڑ بنگلہ دیشوں ہونے کا اندازہ بتایاتھا ۔14جولائی 2004میں اس وقت کے وزیر داخلہ پرکاش جیسوال نے 1.2 0کروڑ بنگلہ دیشی ہونے کا اندازہ ظاہر کیا تھا اب یہ تعداد3کروڑ تک پہنچ چکی ہے ۔یہ پہلی دن سے صاف تھا جب این سی آر کا فائنل ڈرافٹ جس دن جاری ہوگا اس دن دیش کی سیاست میں طوفان کھڑا ہوجائے گا ۔آسام گن پریشد کی اس مسئلے پر ایک رائے بنی تھی کہ این سی آر بنے لیکن اس وقت یہ کام نہیں ہوسکا ۔یہ دکھ کی بات ہے مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی لوگوں کو ورغلانے کے ساتھ ماحول خراب کرنے کا کام کررہی ہیں ۔پتا نہیں کیا سوچ سمجھ کر ممتا نے یہ سوال داغا اگر بنگالی بہار کے لوگوں سے یہ کہیں وہ مغربی بنگال میں نہیں رہ سکتے یا ساؤتھ انڈین کہنے لگے کہ نارتھ انڈین ان کے یہاں نہیں رہ سکتے ؟کیا یہ بے تکا ورغلانے والا سوال نہیں ؟میں یہ کہتا ہوں کہ سوال بنگلہ دیشیوں کا نہیں مسئلہ ناجائز بنگلہ دیشیوں کا ہے یہ ساری قواعد سپریم کورٹ کے حکم پر ہورہی ہے ۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!