کیا تینوں ریاستوں میں کانگریس جیت رہی ہے

اس سال ہونے والے راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اسمبلی چناؤ میں ڈھے جائے گا بی جے پی کا قلعہ۔ کانگریس کو تینوں ریاستوں میں واضح اکثریت ملے گی۔ یہ میرا کہنا نہیں ہے یہ وہ چینل ہیں جس سے ابھی کچھ دن پہلے مبینہ طور سے مرکزی سرکار کئی سینئر صحافیوں کو نکلوا چکی ہے۔یہ کہنا ہے اے بی پی چینل سی ووٹر کا۔ اس چینل کے مالک اتنے خوفزدہ تھے اور کیا یہ بتانے کے لئے یہ سروے کروا کر انہوں نے بھاجپا لیڈر شپ کو بتانا چاہا ہے کہ وہ دباؤ میں کام نہیں کریں گے؟ یعنی میڈیا سے بھاجپا لیڈر شپ کا ڈر بھگانے کیلئے تو نہیں کیا گیا ہے؟ خیر اس سروے کے مطابق تینوں ریاستوں میں چوٹی پر بیٹھی بھاجپا اینٹی کمبینسی کی زبردست لہر سے دوچار ہورہی ہے۔ ان ریاستوں کے اسمبلی چناؤ نتائج 2019 کے سیاسی مہا بھارت کے لئے بڑا سندیش بھی ہیں۔ اسے 2019 کا سیمی فائنل کہنا مناسب نہیں ہوگا۔ اس اوپینین پول کے مطابق تینوں ریاستوں میں کانگریس کی اکثریت کی سرکار بننے کے امکانات ہیں۔ مدھیہ پردیش میں کل 231 سیٹیں ہیں۔ اے بی پی نیوز سی ووٹر کے مطابق بھاجپا کو 106 سیٹیں ملیں گی وہیں کانگریس کو 117 سیٹیں مل سکتی ہیں دیگر پارٹی کو7 سیٹیں مل سکتی ہیں۔ چھتیس گڑھ میں کانگریس کو کل 90 سیٹوں میں سے 54 اور بھاجپا کو 33 سیٹیں ملنے کا دعوی کیا گیا ہے۔ وہیں راجستھان میں کل 200 سیٹوں میں سے کانگریس کو130 ، بھاجپا کو 57 سیٹیں ملنے کی امید بتائی گئی ہے دیگر کو 13 سیٹیں ملنے کا امکان ہے۔ بھاجپا حکمراں ان تینوں ریاستوں میں ہی ان کا سیدھا مقابلہ کانگریس سے ہے۔ ویسے سی ووٹر کے اس سروے پر بھروسہ پر بھی کم سوال نہیں اٹھائے جارہے ہیں۔ سی ووٹر وہی کمپنی ہے جس نے پچھلے اسمبلی چناؤ میں اپنے سروے میں دہلی میں بھاجپا ، پنجاب میں عام آدمی پارٹی ، تاملناڈو میں ڈی ایم کے، کرناٹک میں بھاجپا کو مکمل اکثریت سے سرکار بننے کی پیشگوئی کی گئی تھی۔ مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ میں اسی سال نومبر ۔دسمبر میں اسمبلی چناؤ ہونے ہیں۔ ان تینوں ریاستوں میں بھاجپا کی سرکار ہے۔ جہاں بھاجپا لیڈر شپ نے تینوں ریاستوں میں چناؤ کمپین شروع کردی ہے وہیں وہ اس بات سے بھی انکار نہیں کرسکتے کہ یہاں کانٹے کی لڑائی ہے۔ بھاری سرکار مخالف لہر موجود ہے اور کئی ممبران اسمبلی کے ٹکٹ کٹنے کا امکان ہے۔ اس سروے سے یہ فائدہ ضرور ہے کہ بھاجپا لیڈر شپ کے لئے یہ ایک بیداری کال ہے۔ ظاہر ہے اس سے کانگریس خوش ہوگی۔ راہل گاندھی کو لگے گا ان کی محنت، تپسیا رنگ لا رہی ہے لیکن آخر میں پھر سے یہ سوال اٹھتا ہے جب چناؤ نشان امیدواروں کے سلیکشن وغیرہ کا کام ابھی تک نہیں ہوا تو سی ووٹر نے ایسی پیشگوئی کس بنیاد پر کر ڈالی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!