لوٹ کر آؤں گا، کُوچ سے کیوں ڈروں؟۔۔۔(1)

پورے شمالی ہندوستان میں 27 سال بعد اگر کسی راج نیتا کی انتم یاترا میں سڑکوں پر بھیڑ انتم شردھانجلی دینے کے لئے اتری تو وہ اٹل جی کے لئے تھی۔1991 میں اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کے بے رحمانہ قتل کے وقت ایسا عوامی سیلاب دیکھا گیا تھا۔ ویسے ساؤتھ انڈیا میں اس طرح کا منظر عام ہے لیکن شمالی بھارت میں ایسا صدیوں کے بعد دیکھنے کو ملا ہے۔ دہلی کے لوگوں نے 27 سال بعد کسی سیاستداں کی انتم یاترا میں ایسا عوامی سیلاب دیکھا ہوگا۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کے بعد جو گاندھی جی کی انتم یاترا میں پیدل چلے تھے ، وزیر اعظم نریندر مودی نے آخری وداعی دی۔ جمعہ کو اٹل جی کی انتم یاترا میں ایسا عوامی سیلاب آیا کہ اسے دیکھ کر جے للتا، کروناندھی کی انتم یاترا میں اکھٹی ہوئی بھیڑ کے منظر یاد آگئے۔ گرمی کے باوجود لوگوں کی بھیڑ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ بھیڑ کا سلسلہ ہری داور میں بھی دیکھنے کو ملا۔ ہزاروں لوگوں کی بھیڑ سے بھری ہرکی پوڑی اس لمحہ کا گواہ بنی جب اٹل جی کی استھیوں کو گنگا کی تیز دھاراؤں میں وسرجت کیا گیا۔ ہم دہلی پولیس ، دہلی ٹریفک پولیس کی تعریف کرنا چاہتے ہیں انہوں نے عام لوگوں سے لیکر انتہائی اہم شخصیات کی پورے راستے اتنی اچھی حفاظت دستیاب کرائی۔ جب دیش کے وزیر اعظم ، اہم ترین مرکزی وزیر ، وزرائے اعلی سڑکوں پر اترے تو ان کی حفاظت کرنا ایک چیلنج تھا جس میں دہلی پولیس اول نمبر سے پاس ہوگئی۔اٹل جی کی انتم سنسکار کی جگہ کے بالکل قریب بڑے بڑے الفاظوں میں ہورڈنگ پر لکھا تھا : ہر چنوتی سے دو ہاتھ میں نے کئے ، آندھیوں میں میں نے جلائے دئے۔ انتم بدائی دینے پہنچے بھاجپا نیتا اپوزیشن پارٹیوں کے نیتا ،عام آدمی ہر کوئی اٹل جی کی زندگی کی داستان کو اپنے طریقے سے لکھنا چاہتا تھا۔ ہر شخص کے پاس تھی اٹل جی کی اپنی کہانی۔ بھاجپا کو اقتدار سے صفر سے چوٹی تک پہنچانے والے اٹل بہاری واجپئی نے پارٹی نیتاؤں کی ایک پوری پیڑھی تیار کی ۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھاجپا مرکز کے ساتھ ساتھ 20 سے زائد ریاستوں میں برسر اقتدار ہے۔ وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ہر موقعہ پر اور ہر اپنی تقریروں میں نریندر مودی کبھی اٹل بہاری واجپئی کو یاد کرنا نہیں بھولتے۔ دراصل دونوں لیڈروں کا پرانا تعلق بھی رہا ہے۔ وہ اٹل بہاری واجپئی ہی تھے جن کے فیصلہ سے نریندر مودی اقتدار کی چوٹی تک کا راستہ طے کرپانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ گجرات میں 1995 کے چناؤ میں بھاجپا نے مکمل اکثریت سے حکومت بنائی۔ شنکر سنگھ واگھیلا اور نریندر مودی کو درکنارکر کیشو بھائی پٹیل کو وزیر اعلی بنایا گیا۔ اس کے بعد نریندر مودی کو پارٹی کا کام کاج دیکھنے کے لئے دہلی بلا لیا گیا۔ اکتوبر 2001 میں اٹل بہاری واجپئی نے مودی سے کہا کہ وہ دہلی چھوڑ دیں ،اس لئے کہ اٹل انہیں گجرات کا وزیر اعلی بنانا چاہتے تھے۔ اس دن واجپئی سے ملاقات کرنے کے بعد نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلی بننے کے لئے روانہ ہوگئے۔ اس کے بعد 2002،2007 اور 2012 میں وہ اس عہدہ پر فائض رہے۔ وزیر اعظم کی حیثیت سے اپنے عہد کے دوران وہ گجرات دنگوں کو لیکر اٹل جی کافی پریشان تھے۔ اس وقت نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلی ہوا کرتے تھے۔ 27 فروری 2002 کی صبح ریاست میں گودھرا ریلوے اسٹیشن پر سابرمتی ایکسپریس میں آگ زنی ہوئی تھی جس میں ٹرین کے ڈبے ایس 6- میں سوار 59 کارسیوکوں کی موت ہوگئی۔ یہ کارسیوک ایودھیا سے آرہے تھے۔آگ زنی کے اس واقعہ کے بعد گجرات کے مختلف حصوں میں دنگے بھڑک گئے جس میں اقلیتی فرقے کو نشانہ بنایا گیا۔ ان دنگوں کی خوفناک منظر سے دیش اور بیرونی ملک کی توجہ کھینچی۔ واجپئی 4 اپریل کو احمد آباد کے دورہ پر گئے۔ وہاں وہ شاہ عالم روزہ اقلیتی کیمپ میں بھی گئے اور متاثرین سے ملاقات کی تھی اور حکام کو نصیحت دیتے ہوئے کہا کہ بغیر کسی امتیاز کے ہر شہری کی حفاظت کرنا سرکار کی ذمہ داری ہے اور پاگل پن کو انسانیت کو کچلنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ واجپئی کے کے جذبات نے اس کیمپ میں رہ رہے قریب آٹھ ہزار پناہ گزینوں کا دل جیت لیا اور اپنی تکلیفوں کے باوجود انہوں نے واجپئی کے احساسات کی تعریف کی۔ واجپئی نے کہا گودھرا میں جو کچھ ہوا وہ شرمناک ہے، گودھرا کے بعد جو ہوا وہ بھی کم قابل مذمت نہیں ہے۔ پاگل پن کا جواب پاگل پن سے نہیں دیا جاسکتا۔ آگ سے آگ نہیں بجھائی جاسکتی اور آگ کو پھیلنے سے روکنے کے لئے پانی کی ضرورت پڑتی ہے۔ ظاہر ہے واجپئی گجرات کے حالات کو لیکر کافی بے چین تھے۔ دہلی لوٹنے سے پہلے انہوں نے ہوائی اڈہ پر اخبار نویسوں سے خطاب کیا تھا۔ ایک صحافی نے ان سے مرکز کی مدد اور حالات وغیرہ سے متعلق سوال پوچھ لئے تھے۔ اس سلسلہ میں ان سے جو آخری سوال پوچھا گیا تھا وہ تاریخ کا حصہ بن گیا اور انہوں نے اس کا جو جواب دیا وہ آج بھی ہر سرکار کے لئے نصیحت کی طرح ہے۔ ان سے سوال کیا گیا کہ وزیر اعظم جی اس دورہ پر چیف منسٹر کے لئے آپ کا کیا پیغام ہے، کیا میسج ہے؟ واجپئی: چیف منسٹر کے لئے میرا ایک ہی پیغام ہے کہ وہ راج دھرم کا پالن کریں۔۔۔ راج دھرم ۔۔۔ یہ لفظ کافی پائیدار ہے۔۔۔ میں اسی پر عمل کررہا ہوں اور تعمیل کرانے کی کوشش کررہا ہوں۔ راجہ کے لئے حکمرانی کے لئے پرجا میں کوئی امتیاز نہیں ہوسکتا۔۔۔ پیدائش کی بنیاد پر نہ ذات پات کی بنیاد پر نہ فرقہ واریت کی بنیاد پر ۔ بیچ میں نریندر مودی بولے ہم بھی وہی کررہے ہیں صاحب ۔ واجپئی :مجھے یقین ہے کہ نریندر بھائی وہ ہی کررہے ہیں۔ بہت بہت شکریہ ۔ (جاری)
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!