سب سے اونچے اس جنگی خطہ میں ہر قدم پر موت کا خطرہ ہے

دنیا کے سب سے خطرناک جنگی سیاچن گلیشئر میں تعینات جوانوں کے لئے اسپیشل کپڑے، سلیپنگ کٹ اور دیگر اہم سازو سامان کی ضرورت پڑتی ہے۔ 16 ہزار سے 20 ہزار فٹ کی اونچائی پراس جنگی خطہ میں جوانوں کو کن مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے آپ کو اندازہ بھی نہیں ہوسکتا۔ 100-100 کلو میٹر فی گھنٹے کی رفتار سے آتے برفیلے طوفان کے سبب جہاں تک نگاہ جائے وہاں برف ہی برف نظر آتی ہے۔ اس سب سے اونچے جنگی خطہ کے ہر قدم پر موت کا خطرہ منڈراتا رہتا ہے۔ مشرق میں چین کی سرحد لگتی ہے تو مغرب میں پاکستان کی سرحد ہے۔ آئے دن برفیلے تودے گرنے اور میٹل وائٹ اور فراٹ وائٹ اور زیادہ اونچائی پر ہونے والی بیماریوں کے ساتھ سانس اکھڑنے اور ہڈیاں گلا دینے والی برفباری کے درمیان یہاں کے جوان دیش کی خاطر ڈیوٹی دیتے ہیں۔ تیز برفیلے طوفان کے سبب جوان برف میں دب جاتے ہیں ان کو بچانے کے لئے کتوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ دو سال پہلے ایسے ہی ایک طوفان میں سونم چوکی پر تعینات لانس نائک ہنومن تھاپا کو لیبراڈور نسل کے ڈاگ نے زندہ تلاش کرلیا تھا۔ حالانکہ دہلی میں علاج کے دوران ان کی موت ہوگئی تھی۔ ساڑھے تین دہائی پہلے پاکستان کی دراندازی کا جواب دینے کے لئے لانچ کردہ آپریشن میگھ دوت کے بعد 70 سے75 کلو میٹر میں پھیلا یہ پیچیدہ علاقہ جنگ کے میدان میں تبدیل ہوچکا ہے۔ بھارت کے ان دونوں حریف ملکوں (پاکستان اور چین) کی اہم ترین سی پیک یعنی کمرشل گلیارہ اس کے اوپر سے ہی گزرتا ہے اور ہمارے لئے دوہری چنوتی سے کم نہیں ہے۔ یہاں رہنا اتنا مشکل ہے کہ تین سے چار سال تک سیاچن میں تعیناتی کے دوران جوان نہاتے تک نہیں ہے وہ صرف ٹاول بھگو کر پوچھ لیتے ہیں یعنی اپنے جسم کو صاف کرتے ہیں۔ اس کے بعد جوان پورے دن نگرانی کرتے رہتے ہیں تاکہ انہیں کوئی بیماری نہ ہو۔ ہاتھ میں ڈبل دستانے پہننا ضروری ہوتا ہے تاکہ چمڑی رائفل ٹریگر کو نہ چھوئے۔ رات میں ٹینٹ میں سوتے وقت ہر گھنٹے میں سنتری سبھی جوانوں کو جگاتا ہے تاکہ کم آکسیجن کے سبب سوتے ہوئے کوئی جوان مر نہ جائے۔ آرمی میڈیکل کور کے ڈاکٹر دیو دوت سے کم نہیں ہیں۔ ہر دو سے تین پوسٹ کے درمیان ڈاکٹر کی ٹیم ہے۔ جوان کو نیند نہ آنے، سانس لینے میں تکلیف ہونے، یاد داشت کھونے یا چکر آنے وغیرہ جیسی کئی بیماریاں ہوتی ہیں۔ روزانہ 300 سے 400 جوانوں کا میڈیکل ہوتا ہے۔ وہاں 15 سے20 بیمار ہوکر آتے ہیں۔ سیاچن کے جنگی خطہ میں چوکیوں پرتعیناتی سے پہلے جوانوں کو تین ہفتہ کی سخت ٹریننگ سے گزرنا پڑتا ہے جس میں انہیں ممکنہ بیماریوں اور ان سے بچنے کے قدم بتائے جاتے ہیں۔ جوان جب پیٹرولنگ پر جاتے ہیں تو ایک دوسرے کو ایک رسی سے باندھ لیتے ہیں تاکہ کوئی برف کے نیچے گرے تو فوراً اسے باہر نکال لیا جائے۔ ہیلی کاپٹر یہاں کی لائف لائن ہے۔ ایسی ناگزیں حالات میں ہمارے جوان دیش کی حفاظت کررہے ہیں۔ ان بہادر جوانوں پر پورے دیش کو ناز ہے۔ ان کو ہم سلام کرتے ہیں۔ جے ہند۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!