کانگریس کی قلعہ بندی نے مودی۔شاہ کی حکمت عملی پر پانی پھیر دیا

کرناٹک معاملہ میں کانگریس صدر راہل گاندھی کی سیاسی گگلی نے سیاست کے چانکیہ مانے جانے والے وزیر اعظم نریندر مودی اور بھاجپاپردھان امت شاہ کے کئے دھرے پر پانی پھیردیا۔ ان کی حکمت عملی کو بخوبی انجام دیا ان کے دو سینئر سپہ سالاروں غلام نبی آزاد اور اشوک گہلوت نے۔ ریاست میں بھاجپا کو اقتدار پانے سے روکنے کے راہل گاندھی کے پلان پر دو واضح اشارہ دئے ہیں۔ پہلا کہ بھاجپا کو ہرایا جاسکتا ہے اور دوسرا اگر اپوزیشن ایک ہوجائے تو وہ اقتدار کی بازی جیت سکتی ہے۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق لیتے ہوئے اس بار چناؤ نتیجے سے پہلے کی پوری تیاری کر لی گئی تھی اور سبھی کواس کے مطابق ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ کانگریس کے خراب مینجمنٹ کے سبب حالیہ دنوں میں کئی بار اقتدار کے قریب پہنچنے کے بعد بھی سرکار بنانے میں ناکام رہی ہے۔ اس بار وہ یہ نہیں دوہرانا چاہتی تھی اس لئے پہلے سے ہی پوری تیاری کرلی گئی۔ آخرکار سنیچر کو جب کانگریس کو اپنی حکمت عملی میں کامیابی ملی تب پارٹی نیتاؤں نے راحت کی سانس لی۔ پارٹی نے نتائج سے پہلے ہی تمام امکانات کے پیش نظر تیاری کے بعد پیر کو دیر رات اچانک اشوک گہلوت اور غلام نبی آزاد کوبنگلورو بھیجا تاکہ وہ پلان ’بی‘ کے ساتھ تیار رہیں۔ دیر شام وہاں پہنچ چکے تھے چناؤ نتائج سرکاری طور پر اعلان ہونے سے پہلے ہی کانگریس بلا قباحت جی ڈی ایس کو حمایت دینا واضح اشارہ دے رہا تھا کہ اس چناؤ میں کانگریس اقلیت میں آنے کے باوجود پوری حکمت عملی سے کام کررہی تھی۔ پلان ’بی‘ کے تحت پارٹی نے بغیر سرکاری شرط کے کمار سوامی کو وزیر اعلی بنانے پر حمایت دے دی۔ یہ بھی خاص بات تھی کہ صدر بننے کے بعد راہل گاندھی کی لیڈر شپ میں کرناٹک میں کانگریس پہلی بار چناؤ لڑ رہی تھی۔ چناؤ کے پہلے راہل گاندھی سلسلہ وار پبلک ریلیاں کرتے رہے جبکہ چناؤ کے بعد تینوں حکمت عملی سازوں نے آکر میدان سنبھال لیا۔ بساط بچھانے کے ساتھ ہی پوری حکمت عملی سونیا گاندھی کو بتائی جارہی تھی۔ سونیا گاندھی مسلسل ان تین لیڈروں کو ہدایت دے رہی تھیں جب گورنر نے کانگریس کو بلانے سے انکار کیا اوربھاجپا کو سرکار بنانے کی دعوت دے دی تو کانگریسی نیتا اور وکیل ابھیشیک منوسنگھوی نے قانونی طور پر مورچہ سنبھالا اور سپریم کورٹ گئے اور اسے اس سطح پرلے آئے کہ سپریم کورٹ کو آدھی رات میں سماعت کرنی پڑی۔ اس قانونی لڑائی میں کپل سبل، پی چدمبرم بھی ان کے ساتھ تھے۔ نتیجوں کے بعد چلی اتھل پتھل میں کمار سوامی جب گورنر سے ملنے پہنچے تو ان کے ساتھ اشوک گہلوت ،ملیکا ارجن کھڑگے موجودتھے۔ منگلوار کی رات کانگریسی نیتاؤں نے بنگلورو کے ہوٹل میں دیوگوڑا اور کمار سوامی سے ملاقات کی جہاں غلام نبی آزادبھی ٹھہرے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ کانگریس کے سینئر لیڈر ڈی شیو کمار بھی ہوٹل میں موجود تھے۔ ان کی موجودگی کا ہی نتیجہ تھا کہ کرناٹک میں بی جے پی کی سرکار گر چکی تھی اور جسے کانگریس کی انتہائی سرگرمی اور خاص حکمت عملی کا نتیجہ بتایا جارہا ہے۔ کرناٹک سے پہلے گجرات میں راجیہ سبھا کے ایم پی چناؤ کے دوران بھی امت شاہ کی حکمت عملی کو ناکامی ہاتھ لگی تھی تب کانگریس کے کھیون ہار سونیا گاندھی کے قریبی احمد پٹیل بنے تھے۔ گجرات چناؤ کے دوران اگر احمد پٹیل پارٹی کے سنکٹ موچک بنے تو کرناٹک میں آزاد ،گہلوت، کھڑگے اور ڈی شیو کمار پارٹی کے سنکٹ موچک بنے۔ انہوں نے کرناٹک کے فلور ٹیسٹ سے پہلے تک کانگریسی ممبران کو ٹوٹنے سے بچائے رکھا۔ ان نیتاؤں نے یقینی کیا کہ کوئی بھی ممبر اسمبلی ٹوٹے نہیں۔ ممتا بنرجی، مایاوتی، سیتا رام یچوری نے بھی اس معاملہ میں اپنی رائے دی۔ وہیں ٹی ڈی پی اور پی آر ایس بھی کانگریس کے ان سرکردہ لیڈروں سے مسلسل رابطہ میں تھے۔ اس طرح سب نے مل کر مودی ۔ امت شاہ کی حکمت عملی کو مات دے ڈالی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!