گورنر کے ضمیرکے حق کا جائزہ ضروری ہے

بصد احترام سپریم کورٹ نے کرناٹک سماعت کے دوران بیباک تبصرہ کیا کہ گورنر کے ضمیر کے حق کا عدالتی جائزہ لیا جانا چاہئے اور بیشک وہ آئین کا سب سے بڑا ادارہ ہے لیکن ان کی کارروائی کو دیکھا جائے گا کہ قانونی طور سے جائز ہے یا نہیں؟ جسٹس اے کے سیکری کی سربراہی والی تین ججوں کی خصوصی بنچ نے کہا کہ یہ حساس اشو ہے اور اس کی سماعت 10 ہفتے بعد ہوگی۔ بنچ نے یہ ریمارکس سینئر وکیل اور ایم پی رام جیٹھ ملانی کی عرضی پر دئے۔ عرضی میں جیٹھ ملانی نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کو اس معاملہ میں فیصلہ دینا چاہئے کیونکہ گورنر نے ایسے طریقے سے کام کیا ہے جو انہیں نہیں کرنا چاہئے تھا۔ بنچ نے صاف کیا تھا کہ گورنر نے بھاجپا کو سرکار بنانے کے لئے بلانے کے معاملہ میں کسی دیگر کو فریق بننے کی اجازت نہیں دی تھی لیکن بنچ جیٹھ ملانی کو سننے کے لئے تیار ہوگئی۔ بنچ کے دیگر دو ججوں جسٹس بھوشن اور بی ڈے سومی سے بھی اجازت مانگی اور اس کے بعد کہا کہ گورنر کا حکم آئینی اختیارات کا زبردست بیجا استعمال ہے۔ اس سے آئین سازیہ بدنام ہوئی ہے اور بھاجپا نے جو کہا انہوں نے وہ ہی بیوقوفی پر مبنی کارروائی کردی۔ گورنر کا حکم کرپشن کو کھلی دعوت ہے۔ کرناٹک معاملہ کی سماعت میں سپریم کورٹ نے صاف کیا جہاں حقیقت خود کھل رہی ہے وہاں ضمیر حق نہیں ہونا چاہئے۔ اٹارنی جنرل کے وینو گوپال نے کہا کہ بھاجپا کے وزیر اعلی کے امیدوار یدی یرپا نے گورنر وجوبھائی والا کو لکھے خط میں اکثریت کا دعوی کیا تھا اس پربنچ نے پوچھا کیا آپ وہ خط لائے ہیں؟ وینو گوپال نے کہا کہ یہ خط روہتگی کے پاس ہے۔ ویسے سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ چناؤ کے بعد ہوئے اتحاد کی جگہ سب سے بڑی پارٹی سے نیچے ہوتی ہے۔ کانگریس ۔ جے ڈی ایس کی عرضی کی سماعت کررہی بنچ کے جسٹس اے کے سیکری نے کہا کہ سرکاریہ کمیشن کی سفارشوں کے مطابق سب سے بڑی پارٹی کو گورنر سرکار بنانے کے لئے بلائیں گے۔ اگر اس پارٹی کے پاس اکثریت ہے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے، اگر نہ ہو تو دو صورت ہوتی ہیں چناؤ سے پہلے اتحاد اور چناؤ کے بعد کا اتحاد۔ چناؤ سے پہلے اتحاد کے پاس اگر اکثریت ہے تو سرکار بنانے کے لئے بلایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حالانکہ چناؤ کے بعد اتحاد کی وہ پوزیشن نہیں ہوتی جو چناؤ سے پہلے اتحاد کی ہوتی ہے۔ ہم سپریم کورٹ کے ریمارکس کا خیر مقدم کرتے ہیں اور گورنر کبھی کبھی جانبدارانہ فیصلے کرتے ہیں ،جو غیر جمہوری ہوتے ہیں۔ آئین میں بھی گورنر کے اختیارات کی تشریح نہیں ہے اس لئے بہتر ہے کہ سپریم کورٹ گورنر کے اختیارات کی تشریح کرے اور ضمیر کے حق ختم ہونا چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!