جموں سرحد پر بسے ہندوؤں کی دردشا

آئے دن ہمیں بتایا جاتا ہے کہ جموں وکشمیر میں ہندوستانی فوج کے زبردست منہ توڑ جواب سے پاکستان میں ہائے توبہ مچ گئی ہے اور پاکستانی رینجرس بی ایس ایف حکام سے بین الاقوامی سرحد پر امن قائم کرنے کے لئے گڑ گڑا رہے ہیں۔ بیشک یہ صحیح بھی ہو لیکن پھر اسی دن رات کو پاک کی طرف سے پھر فائرنگ شروع ہوجاتی ہے اس کا کیا مطلب ہے؟ اس سال پاکستان نے ابھی تک جموں و کشمیر میں واقع بین الاقوامی سرحد اور کنٹرول لائن پر 700 مرتبہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس سے سکیورٹی فورس کے 18 جوانوں سمیت 38 لوگوں کی موت ہوچکی ہے۔ہزاروں لوگ اپنے گھروں کو چھوڑنے کے لئے مجبور ہوگئے ہیں۔ جموں و خط میں تو پاکستانی گولہ باری سے اتنی تباہی ہورہی ہے جس کا کوئی حساب نہیں۔ جموں وکشمیر میں بی جے پی کی محبوبہ مفتی کی ٹی ڈی پی کے ساتھ حکومت ہے۔ پاکستانی فوجیوں نے کل یعنی پیر کو جموں ضلع میں سرحدی گاؤں کو مور ٹار و گولوں و چھوٹے ہتھیاروں سے نشانہ بنایا جس سے 8 مہینے کے ایک بچے کی موت ہوگئی اور ایک اسپیشل افسر سمیت 6 لوگ زخمی ہوگئے۔ میں نے کل ہی ایک ویڈیو کلپ دیکھا جس میں جموں و کشمیر کے سرحدی گاؤں میں بمباری کے سبب ایک نوجوان کی موت ہوگئی اور اس کے بھائی نے کلپ میں بتایا کہ وہ اپنے بھائی اور دوسرے مرے لوگوں کی لاشیں ٹریکٹروں پر لانے پر مجبور ہوئے۔ کیا سرکار انہیں اتنی بھی سہولت نہیں دے سکتی ؟ بی جے پی کو جتنے بھی ووٹ ملے وہ جموں وکشمیر خطہ سے ہی ملے آج اگر وہ اقتدار میں ہے تو وہ ہندوؤں کی وجہ سے ہی ہے۔بی جے پی نے جموں کے ہندوؤں کی سکیورٹی اور ترقی کے لئے آخر کیا کیا ہے؟ آج حالت اتنی خراب ہوگئی ہے کہ جموں سے ہندوؤں کا دیش کے دوسرے حصوں میں ہجرت شروع ہوگئی ہے اور وہ مجبور ہوگئے ہیں کہ اپنے گھر بار چھوڑ کر بچوں کو لیکر دہلی ،چنڈی گڑھ یا بھارت کے دیگر حصوں میں جا بچیں۔ اس دن کے لئے جموں کے ہندوؤں نے بی جے پی کو ووٹ دیا تھا؟ ترقی کی تو چھوڑیئے ان کی سکیورٹی تک نہیں ہوسکی۔ ریاست میں بی جے پی نے محبوبہ مفتی کے سامنے جیسے گھٹنے ٹیک دئے ہیں بھاجپا نے رمضان میں سیز فائر کے فیصلے پر اپنی مہر کیوں لگادی۔ جبکہ فوج کہتی رہی ہے کہ ہم اس طرح کے ایک طرفہ سیز فائر کے خلاف ہیں لیکن بی جے پی نے ایک نہیں سنی، کیا جموں وکشمیر میں ہندوستانی فوجیوں کی جان کی کوئی قیمت نہیں ہے؟ نریندر مودی کے جموں و کشمیر دورہ سے ٹھیک پہلے مرکزی حکومت نے کشمیر میں سیز فائر کا فیصلہ کیا۔ اس کے تحت رمضان کے مقدس مہینے کے دوران ریاست میں آتنک وادیوں کے خلاف فوج اپنی کارروائی ملتوی رکھے گی۔ ادھر مرکزی حکومت نے کہا کہ رمضان میں بندوقیں بند رہیں گی۔ ادھر شوپیاں ضلع میں سکیورٹی فورسز پر حملہ ہوا۔ ترال میں فوج کی پیٹرولنگ پارٹی پر دہشت گردوں نے بم پھینکا۔ فوج جب آتنکیوں کو مارنے کے لئے گھیرتی ہے تو کشمیری نوجوان ان پر پتھر مارتے ہیں اور تھوکتے ہیں اور فوج برداشت کرتی ہے۔ پیٹھ پر ہاتھ باندھ کر آپ فوج کو کیسے لڑنے کے لئے کہہ سکتے ہیں؟ کیا ہمارے فوجیوں کی زندگی کی کوئی قیمت نہیں ہے؟ آخر کار یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟اس سے بہتر تو یہ ہے کہ بھاجپا جموں و کشمیر اتحاد سے الگ ہو اور ریاست میں صدر راج لگا کر ریاست کو فوج کے حوالے کردیا جائے۔ بھاجپا کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ ہندوؤں کے ووٹوں سے ہی اقتدار میں آئی ہے۔ آج انہی ہندوؤں کی سلامتی اور ترقی کرنے میں ناکام ہے، وہ بھی ایک علیحدگی پسندی کے نظریئے کی مکھیہ منتری کے لئے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!