ملک دشمنوں کا اڈہ بنتی جواہر لال نہرو یونیورسٹی

دہلی یونیورسٹی میں رامجس کالج میں جے این یو کے طالبعلم عمر خالد کو بلائے جانے پر پچھلے بدھوار کو طلبا کے گروپوں کے درمیان لڑائی اور مارپیٹ ہوئی۔ اس میں ایک ایسی طالبہ تھی پریرنا بھاردواج جو دیش کے خلاف نعرے لگانے کی آواز سنتے ہی بھڑک گئی اور 70 نعرے لگانے والوں سے اکیلے بھڑ گئی لیکن اس نے ہار نہیں مانی۔ طالبہ پریرنا نے کہا کہ دیش کے خلاف بولنے والے لوگ حیوان کی طرح برتاؤ کررہے ہیں۔ اسے اکیلا دیکھ نہ صرف اس کے کپڑے پھاڑے گئے بلکہ اس کی چھاتی پر مکے مارنے سے بھی پیچھے نہیں رہے۔ واقعے کو بتاتے ہوئے پریرنا نے کہا کہ وہ کروڑی مل کالج میں پڑھتی ہے اور این سی سی کی کیڈٹ بھی ہے۔ پھٹے ہوئے کپڑوں کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ دراصل جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں دیش مخالف سرگرمیاں پچھلے کچھ عرصے سے تیز ہوئی ہیں۔ بات چاہے جے این یو کی ہو یا دہلی یونیورسٹی کی دنوں ہی دنیا کی نامور یونیورسٹیوں میں شمار کی جاتی ہیں۔ انہیں نے دیش دنیا کو انگنت شخصیتیں فراہم کی ہیں۔ ایسے میں وہ اس طرح کے بیہودہ واقعات کا ہونا جائز نہیں مانا جاسکتا۔ اعلی تعلیم حاصل کررہے طلبا بھی اگر گھنونے ذہنیت کو ترک نہیں کریں گے تو اوروں سے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ دراصل جے این یو میں کمیونسٹوں کا بول بالا ہے۔ کچھ ایسے نام نہاد دانشور سماج میں ہیں جو اس طرح کی غلط سلط بحث کو چھڑے رکھتے ہیں۔ حقیقت میں یہ طبقہ بھارت کی ہر چیز میں کمی دیکھتا ہے اور اسے بڑھا چڑھا کر بتانے کی کوشش کرتا ہے۔ کمیونسٹ مزاج اسٹوڈنٹ تنظیم ’آئیسہ‘ عمر خالد جیسے کشمیری علیحدگی پسند آئیڈیالوجی کے لوگوں کو بلا کر دیش مخالف نعرے لگواتے ہیں۔ جے این یو انہی کی وجہ سے آج دیش مخالف سرگرمیوں کا اڈہ بنتی جارہی ہے۔ اے بی وی پی ان کی مخالفت کرتی ہے اور وقتاً فوقتاً ان دونوں کے درمیان ٹکراؤ کے حالات بھی بنتے ہیں۔ طلبا کو اپنی بات کہنے کا پورا حق ہے لیکن جب وہ دیش کی آزادی، بربادی اور دیش کے ٹکڑے کرنے کی بات کرتے ہیں تو اسے کون برداشت کرسکتا ہے۔ تقریر کی آزادی کا مطلب یہ قطعی نہیں ہے کہ آپ دیش کو توڑنے کی بات کریں۔ برسوں سے کچھ نیتا اپنے آپ کو اسٹوڈنٹ لیڈر کہتے آئے ہیں لیکن جے این یو میں آگے کی پڑھائی کرنے کے لئے یہ طلبا نیتا نہیں ہیں بلکہ وہ وہاں پڑے ہوئے ہیں۔یہ اپنے سیاسی ایجنڈے کو بڑھانے کے لئے جمے ہوئے ہیں اور دیش میں ان کے حمایتی بھی کم نہیں ہیں جو ان کی ملک دشمن سرگرمیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ سرکار کو جے این یو میں سختی سے پیش آنا چاہئے اور دیش کی جنتا کی گاڑھی کمائی کو برباد ہونے سے روکا جائے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!