طوفان سے پہلے کی خاموشی کے انڈر کرنٹ کا اشارہ
پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کا مہا دنگل اب اپنے کلائمکس کی طرف بڑھ رہا ہے۔ سنیچر کو جب الیکٹرانک ووٹنگ مشین کھولی جائیں گی تب پتا چلے گا کہ کس کی قسمت چمکے گی اور کس کی ڈوبے گی۔ ان اسمبلی انتخابات کا جب اعلان ہواتھا تو لگا تھا کہ اس مرتبہ شور کم ، الفاظ زیادہ ہوں گے۔ سوچا تھا کہ یہ چناؤ اشو پر مبنی ہوں گے لیکن جس طرح سے بیان بازی چلی ،الزام در الزام کا دور چلا اس کی شاید کسی کو امید نہیں رہی ہوگی۔ پورے چناؤ میں جس طرح کی زبان کا استعمال ہوا، جس سطح پر چناؤ کمپین پہنچی وہ کسی کو زیب نہیں دیتی۔ طے کرنا مشکل ہے کہ زمین کا شور زیادہ خطرناک تھا یا خیالی دنیا کا۔ اس شور کے کی گونج کافی عرصے تک محسوس کی جائے گی۔ بحث تو تبھی شروع ہوگئی تھی جب یوپی میں پولنگ کے 7 مرحلے طے ہوئے تھے اور کہا جانے لگا تھا کہ ڈیجیٹل دور میں جب کمیونی کیشن مشینری اور آنا جانا اتنا آسان ہوچکا ہے تب پولنگ کے انعقاد میں ایسی توسیع کا کیا جواز ہے؟ خاص کر اترپردیش کی چنوتی اتنی بھاری تھی کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو تین دن تک اپنے چناوی حلقہ بنارس میں ڈیرا ڈالنا پڑا، روڈ شو کرنا پڑا۔ مندروں مٹھوں کے درشن کرنے پڑے۔ ان کے خلاف کانگریس ۔سپا اتحاد ،بسپا نے بھی پورے دم خم کے ساتھ کمپین چلائی۔سچ تو یہ ہے کہ اس چناؤ کا اصلی ہیرو اترپردیش کا ووٹر ثابت ہوا ہے، جس نے اپنے اشارے پر سب کو نچایا، سڑک سڑک دوڑایا، لیکن منزل کسی کودکھائی نہیں دینے دی۔ چناؤ میں لہر دکھائی دینے یا چلنے کا عکس اس بار شاید ایک خاموشی کی طرح ہے جو لہر یا انڈر کرنٹ رہا جس کی گہرائی میں اب تک کوئی پہنچ نہیں سکا۔ کہنے میں گریز نہیں کہ کسی دیش یا ریاست کا چناؤ ایک نئے آغاز کا نقطہ ہوا کرتا تھا۔ اس کے بڑے معنی ہوتے ہیں۔ اکثر یہ آگے کی سمت طے کرتا ہے۔ ان پانچ ریاستوں کے نتیجے دیش کی امکانی سیاست میں اہم ترین پڑاؤ ہوں گے۔ 2019ء میں لوک سبھا چناؤ ہونے ہیں۔ اسی سال گجرات میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔ سنیچر کو جب ووٹوں کی گنتی شروع ہوگی اس سے پتہ چلے گا کہ دیش کے مستقبل کی سیاست کس سمت میں گھومتی ہے۔ داؤ پر جہاں وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی پارٹی بھاجپا کی ساکھ ہے وہیں یہ چناؤ سماج وادی پارٹی کا بھی مستقبل طے کرے گا۔ اگر اکھلیش یادو کامیاب ہوتے ہیں تو وہ سب سے طاقتور بن کر ابھریں گے۔ اگر وہ ہارتے ہیں تو سماجوادی پارٹی کا موجودہ نقشہ ہی بدل جائے گا۔ کم و بیش یہی حالت مایاوتی اور بہوجن سماج پارٹی کی بھی ہے۔ اگر بسپا اس چناؤ میں اچھا اور قابل اطمینان کارکردگی دکھاتی ہے تو اس کے مستقبل پربھی خطرے کے بادل منڈلانے لگیں گے۔ اتراکھنڈ میں پتا چلے گا کہ اکیلے اپنے دم خم پر کیا ہریش راوت نے بھاجپا کو چنوتی دینے میں کامیابی پائی ہے یا نہیں؟ عام آدمی پارٹی کا بھی سیاسی مستقبل ان چناؤ نتائج پر کچھ حدتک ٹکا ہوا ہے۔ پنجاب میں اس کے جیتنے کے امکانات جتائے جارہے ہیں لیکن کانگریس نے سخت ٹکر دی ہے۔ بیشک گووا میں بھی عام آدمی پارٹی نے چناؤ لڑا ہے لیکن یہاں کوئی معجزاتی نتیجے کی امید کم ہے۔ اگر پنجاب اور گووا میں اروند کیجریوال اچھی کارکردگی دکھاتے ہیں تواس کا سیدھا اثر دہلی ایم سی ڈی کے انتخابات پر پڑ سکتا ہے۔ ان نتائج کا کانگریس پارٹی پر بھی گہرا اثر پڑے گا۔ خاص کر اترپردیش چناؤ نتائج کا ۔چناؤ کمپین ختم ہوتے ہی کانگریس میں کمپین حکمت عملی کو لیکر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ پارٹی کا ایک بڑا طبقہ پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ کی کمپین حکمت عملی سے خوش نہیں ہے۔ خاص کر یوپی کو لیکر زیادہ ناراضگی پائی جاتی ہے۔ پارٹی کے ایک نیتا نے کہا کہ کانگریس نائب صدر راہل گاندھی نے چناؤ کمپین میں زوردار طریقے سے محنت کی لیکن دوسرے نمبر کے لیڈروں کا کمپین میں کوئی رول نہیں رہا۔ ضلع کانگریس کے لیڈروں کو بھی کمپین میں کوئی ذمہ داری نہیں سونپی گئی تھی۔ انہوں نے کہا راہل گاندھی نے یومیہ تین گھنٹے سے زیادہ کمپین میں محنت کی ہے اگر وہ اپنے ساتھ دوسرے نمبر کے50 لیڈروں کو جوڑ لیتے تو محنت 150 گنا بڑھ جاتی۔ کانگریس کے کئی نیتاؤں کا خیال ہے کہ جب تک پارٹی تنظیم مضبوط نہیں ہوتی چناؤ کمپین میں سخت محنت سے کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ پارٹی کا ایک بہت بڑا طبقہ مانتا ہے کہ کانگریس کو سماجوادی پارٹی سے اتحاد کرنے سے نقصان ہوا۔ پہلے ہی دن سے کانگریس سپا کی بی ٹیم بن گئی اور اس نے اپنے وجود پر بھی سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ لگتا ہے اس بار امید ہے کہ لوگ ایسا فیصلہ سنائیں گے جس سے پارٹیوں اور نیتاؤں کو کچھ سبق ملے۔ انہیں صحیح سیاسی سمت میں بڑھنے کا پیغام ملے۔ امید یہ بھی کرنی چاہئے کہ ووٹر فیصلہ کن رائے دیں گے اور جس پارٹی کو بھی اپنا قیمتی ووٹ دیں گے ، اتنا دیں گے کہ وہ مکمل اکثریت سے اپنے دم خم پر سرکار بنا سکے۔ معلق مینڈیٹ اور معلق اسمبلی الٹے مسائل بڑھائے گا اور دیش پیچھے چلا جائے گا۔ دیکھیں آخر سنیچر کو جنتا کیا فیصلہ سناتی ہے؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں