برگزیٹ برطانیہ و یوروپ میں سیاسی زلزلہ
جمعرات کو برطانیہ میں ہوئے ریفرنڈم میں یوروپ کی سیاست میں زلزلہ آگیا ہے اس ریفرنڈم میں برطانیہ کی عوام نے یوروپی یونین سے الگ ہونے کافیصلہ کیا تھا۔اب اس ریفرنڈم کے خلاف برطانیہ میں ہی آواز تیز ہوتی جارہی ہے۔ اسے منسوخ کرنے اور دوسرا مینڈنٹ لینے کی مانگ زور پکڑتی جارہی ہیں۔ تازہ خبر کے مطابق اس فیصلے کے خلاف سرکاری ویب سائٹ پر عرضی دینے والوں کی تعداد 30لاکھ سے زیادہ ہوچکی ہیں یہ تعداد اس موضوع پر کے برطانوی پارلیمنٹ کے ہاؤس آف کامنز میں بحث کے لئے توقع کی بنیاد پر نمبروں سے ایک لاکھ زیادہ ہے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے دوسرے ریفرنڈم کے امکانات سے انکار نہیں کیا ہے ادھر اسکاٹ لینڈ کی فرسٹ منسٹر نیوکولا اسٹار جی اون نے ریفرنڈم پر تلخ تیور دکھاتے ہوئے کہا ہے کہ اسکاٹ لینڈ کی پارلیمنٹ برطانیہ کے یوروپی یونین سے الگ ہونے کے فیصلہ کو روکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرے گی انہوں نے کہاکہ وہ پارلیمنٹ میں ممبران سے برگزیٹ پر قانونی منظوری نہ دینے کے لئے اپیل کریں گے۔ ایک خبررساں ایجنسی کے مطابق اگر پارلیمنٹ میں اسکاٹ لینڈ کے وسیع مفادات کو سنجیدگی سے سمجھا گیا توبرگزیٹ کو روکنے کا اشو پارلیمنٹ کی ٹیبل پر ہوگا۔ اسٹار جی اون کی اسکوائسٹش نیشنل پارٹی کے 129 ممبری پارلیمنٹ 63ممبر ہے کنزرویوپارٹی میں ڈیوڈ کیمرون کی جگہ لینے کے لئے نیتاؤں نے جوڑ توڑ شروع کردی ہے۔ اکتوبر میں ہونے والے پارٹی کے اجلاس میں نیا لیڈر چنا جائے گا۔ لندن کے سابق میئر گورس جانسن اور وزیرداخلہ تھیرسا کے درمیان بڑا مقابلہ لگ رہا ہے۔ سنڈے ٹائم کے مطابق مائیکل کوئے نے جانسن کو حمایت دی ہے وہی کیمرون کی حمایت میں ساتھ ہے برگزیٹ کے بعد کیا اب فرانس یوروپی یونین سے نکلنے کے لئے فریگزیٹ بنوائے گا؟ صدر فرانسیسیوں اولانڈ نے امکان سے انکار کیاہے لیکن 2017 میں ہونے والے چناؤ کے سبب وہ دباؤ میں ہے۔ کٹر ساؤتھ پنتھی لیڈر میرین لیپیں چاہتی ہے کہ برطانیہ جیسا ریفرنڈم فرانس میں بھی ہو۔ ادھر یوروپی یونین پارلیمنٹ نے کہا ہے کہ برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو یوروپی یونین سے الگ ہونے کی خانہ پوری 28 جون سے شروع کردینی چاہئے۔ 28 و 29 جون کو یعنی ( آج) یوروپی یونین کی خاص میٹنگ ہوگی اس کے ساتھ ہی یوروپی یونین نے الگ ہونے کے خانہ پوریوں کو کم کرنے کے لئے قدم اٹھانے شروع کردیئے ہیں۔ برطانیہ میں یوروپی یونین کی ممبر شپ پر جمعرات کو کرائے گئے ریفرنڈم میں 52 فیصد لوگوں نے یونین سے باہر آنے حق میں ووٹ دیا تھا۔ ولیم اولیور ہیلے نے دوبارہ ریفرنڈم کی مانگ کرتے ہوئے اپیل دائر کی تھی۔ اپیل میں لکھا ہے کہ ہم زیادہ حوصلہ افزا لوگ برطانوی سرکار سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ یہ قاعدہ لاگو کریں کے اگر برگزیٹ 75 فیصد سے کم لوگ ووٹ دیں اور یوروپی یونین میں بنے رہنے اور الگ ہونے کے لئے 60 فیصد سے کم ووٹ ہوں تودوبارہ ریفرنڈم کرایا جائے۔ برطانیہ میں ابھی ریفرنڈم میں 72.2 فیصد لوگوں نے ووٹ دیاتھا۔ پارلیمنٹ کی اپیل کمیٹی ہی پارلیمانی عرضیوں کے کام کاج کو دیکھتی ہیں اور وہی فیصلہ لیتی ہے اگر کسی اپیل پر ایک لاکھ سے زیادہ دستخط ہوں تو اس پر ہاؤس آف کامنز میں بحث کراوئی جائے یا نہیں۔ ایسا بھی دیکھاجارہا ہے کہ الگ ہونے کے لئے ووٹ دینے والے برطانوی شہری اپنے فیصلہ پر افسوس جتانے لگے ہیں ۔ لندن کے شہری ایک خاتون نے کہاہے کہ موقع دیاجائے تو میں فیصلہ بدلناچاہوں گی۔ یہ بھی کہاجارہا ہے کہ ریفرنڈم کا نتیجہ برطانوی سرکار پر لاگو نہیں ہے۔ دیکھیں برطانیہ اور یوروپ میں آئے سیاسی زلزلہ میںآگے کیا کیا ہوتا ہے؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں