کب تک پاکستان دوہرا رخ اپنائے گا؟
پیشاور اسکول میں گھناؤنے دہشت گردانہ حملے کے بعد ہونے والی صبح یقینی طور سے پاکستانیوں کو رات سے بھی زیادہ کالی محسوس ہوئی ہوگی۔ اس لئے کہ زیادہ تر اسکولی بچوں کو جس دن دفنانا پڑا وہ دن کسی بھی ملک کے لئے کبھی نہ بھولنے والا ہوگا۔ اس کانڈ نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔پاکستان کے ساتھ کیسے بھی رشتے ہوں لیکن آج ہم سبھی پاکستان کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس واقعے کے بعد پاکستان ان دہشت گرد تنظیموں کے تئیں اپنے نظریئے اور پالیسی میں تبدیلی لائے گا؟ کیا یہ دکھ اور یہ وابستگی پاکستان کی سرزمیں سے ان دہشت گرد عناصر کو ختم کرنے میں مددگار ہوسکتی ہے جو گاہے بگائے پاکستان ہی نہیں باہر کے بھی بے قصور شہریوں کو مارتے رہتے ہیں؟ ابھی بچوں کے قتل عام کو24 گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے پاکستان کا آتنک واد کو لیکر دوہرا چہرہ بے نقاب ہوگیا۔ پاکستان کی ایک عدالت نے جمعرات کو لشکر طیبہ کے آپریشن کمانڈر ممبئی حملوں کے ماسٹر مائنڈ زکی الرحمن لکھوی کو اس لئے ضمانت دے دی کیونکہ وکیلوں کی ہڑتال کے چلتے سرکاری وکیل مقدمے کی سماعت کے لئے عدالت نہیں پہنچے تھے۔ تازہ اطلا ع کے مطابق پاکستان سرکار نے لکھوی کو ایم پی او کے تحت 3 مہینے تک جیل میں ہی رکھنے کا حکم دیا ہے اور اس کی اطلاع بھارت سرکار کو بھی دے دی ہے۔بدقسمتی دکھئے وکیل پیشاور کے اسکول میں آتنکیوں کے ذریعے بچوں اور لوگوں کے قتل کے احتجاج میں ہڑتال پر تھے۔ 54 سالہ لکھوی اور دیگر 6 نے وکیلوں کی ہڑتال کے درمیان ضمانت کی عرضی دی تھی۔ پیشاور کے حملے کو 1947ء میں پاکستان کے قیام کے بعد سب سے خوفناک قومی ٹریجڈی بتایا جارہا ہے جس سے وہاں عام لوگوں کی سیاسی پارٹیوں سے ناراضگی اور ناامیدی کو لاچاری کی علامت مانا جاسکتا ہے۔ اسی دباؤ کا نتیجہ ہے کہ پاک وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے کٹر سیاسی حریف عمران خاں سمیت سبھی سیاسی پارٹیوں کو ایک ساتھ آکر اس حملے کی نہ صرف مذمت کرنی پڑی بلکہ انہیں پاکستان کی سرزمیں سے دہشت گردوں کا پوری طرح صفایا کرنے کا وعدہ بھی کرنا پڑا۔ پاکستان کیلئے یہ واقعی امتحان کی گھڑی ہے لیکن کیا پاکستان حقیقت میں دہشت گردی کو پوری طرح سے ختم کرنے کے لئے تیار ہے؟ نواز شریف نے حملے کے فوراً بعد دہشت گردی سے متعلق معاملوں میں پھانسی پرلگی سزا پر روک ہٹانے کا اعلان کیا ہے۔ پھانسی نہ دینے کا 6 سال پرانا فیصلہ پلٹ دیا گیا ہے۔ ایسے دہشت گردوں کے خلاف دیتھ وارنٹ دو دن میں جاری ہوں گے۔800 دہشت گردوں کو پھانسی کی سزا سنائی جاچکی ہے۔ حکومت نے اچھے برے طالبان کا فرق بھی ختم کردیا ہے۔ یہ بھی کہا ہے کہ طالبان سے بات چیت نہیں ہوگی صرف کارروائی ہوگی اور تب تک جاری رہے گی جب تک ایک بھی آتنکی زندہ رہے گا۔ نواز اور پاک فوج دہشت گردوں پر کارروائی کرنا چاہتے ہیں یا صرف طالبان پر؟ کیونکہ آج بھی دنیا کے دو سب سے بڑے آتنکی سرغنہ حافظ سعید اور داؤد ابراہیم اسی کی سرپرستی میں پھل پھول رہے ہیں۔ پاک سرکار آج بھی انہیں جن سیوک مانتی ہے۔ اگر واقعی پاکستان کی سرکار اورفوج دہشت گردی سے نجات چاہتی ہے تو پہلے اسے حافظ سعید اور داؤد ابراہیم اور لکھوی جیسے سرغناؤں سے نجات پانی ہوگی۔ اگرچہ پاکستان سرکار اور فوج حافظ سعید وغیرہ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی تو پھر اس کا سیدھا مطلب ہوگا کہ اچھے برے دہشت گردوں میں فرق نہ کرنے کا جو یقین دلایا ہے اس کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی۔ نواز شریف دہشت گردوں کے صفائے کا وعدہ کرتے ہیں اور ممبئی حملے کے لئے ذمہ دار مانے جانے والے آتنکی سرغنہ حافظ سعید بھارت کو دھمکانے میں لگا ہوا ہے۔ حافظ سعید پر کارروائی تو دور کی بات اس نے اس حملے کے بعد ایک بار پھر سے بھارت کو دھمکی دی ہے اور پاکستان میں اسے کوئی روک بھی نہیں رہا ہے۔ کیا پاکستان یہ تسلیم کرنے کو تیار ہے کہ آتنکی حملہ کہیں بھی ہو اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بار بار پاکستان کے دوہرے چہرے کے ثبوت ملتے ہیں ، امید کی جاتی ہے پاکستان اپنے دوہرے چہرے کو بدلے گا اور جو وعدہ کیا ہے اسے بھی نبھائے گا؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں