یہ ہے دہشت گردی کا سب سے خوفناک چہرہ!
یکایک جہادی دہشت گردوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں اور اب پیشاور میں دہشت گردانہ حملے ہوئے ہیں۔ کشمیر میں تو آئے دن اس طرح کے حملے ہوتے ہی رہتے ہیں۔ کیا یہ حملے ایک تنظیم کروا رہی ہے؟ کیا سڈنی اور پیشاور کے حملوں میں کوئی یکسانیت ہے؟ ویسے تو ہمارے کشمیر میں پچھلے 26 برسوں میں دہشت گردی 50 ہزار سے زیادہ لوگوں کی جان لے چکی ہے لیکن پاکستان کے پیشاور آرمی اسکول میں جس طرح گھس پر بچوں کو لائن میں کھڑا کر دہشت گردوں نے گولیوں سے بھونا ہے ،وہ رونگٹے کھڑے کرنے والا منظر تھا۔ کچھ بچوں کے سر بھی کاٹ دئے گئے۔ واردات کے وقت اسکول میں 1100 سے زائد بچے تھے۔ بچوں کو مارنے والی یہ وہی تنظیم ہے جس نے ملالہ کے سر میں گولی ماری تھی۔بزدلی کی حدیں پار کرتے ہوئے طالبان نے کہا ہے کہ پاکستانی فوج نے ہمارے کنبوں کو اجاڑدیا ہے اس لئے ہم نے پاک فوج کے بچوں پر یہ حملہ کیا ہے تاکہ وہ جان سکیں کہ انہوں نے ہمیں کتنا تڑپایا ہے۔ پاکستانی تاریخ میں کسی بھی اسکول پر ہوئے حملے میں یہ سب سے بڑا اور بربریت آمیز حملہ تھا۔ اس نے نہ صرف پاکستان کو بلکہ پوری دنیا کو جھنجھوڑ ڈالا ہے۔ پاکستان فوج نے پاکستانی طالبان اور نارتھ وزیرستان کے دہشت گردوں کے خلاف ’’ضرب عود‘‘ نام کا فوجی آپریشن چلایا ہوا ہے۔ اسی سال جون میں شروع ہوئی اس کارروائی کے تحت اب تک 1600 سے زائد دہشت گرد مارے جاچکے ہیں۔ اسی کے جواب میں پاکستانی طالبان نے اس قتلِ عام کو انجام دیا ہے۔ پاک فوج کی کارروائی سے دہشت گردوں میں بوکھلاہٹ تھی۔ خاص طور پر وہ فوج سے بدلہ لینے کے فراق میں تھے۔ فوج کے کیمپ پر حملہ کرنے کے لئے انہیں زیادہ تیاری کے ساتھ جانا پڑتا اس لئے انہوں نے پیشاور کے اس آرمی اسکول میں پڑھ رہے فوجیوں و عام لوگوں کے بچوں کو نشانہ بنایا۔ویسے بھی بچے آسانی سے نشانہ بن سکتے ہیں اور اس آرمی اسکول میں کوئی مضبوط سکیورٹی انتظام نہیں تھے۔
محض دو تین سکیورٹی گارڈ تھے وہ بھی بغیر ہتھیار کے تھے۔ پاکستان میں دہشت گردانہ واقعات پر نظر ڈالیں تو واقف کاروں کا کہنا ہے کہ پیشاور میں حملے ملالہ یوسف زئی کو2014ء کا نوبل انعام دئے جانے کا بدلہ بھی ہوسکتا ہے۔ بچوں کی اسکولی تعلیم کیلئے مہم چلا رہی ملالہ پر2012ء میں انہی پاکستانی طالبان نے حملہ کیا تھا۔ حال ہی میں طالبان نے ملالہ کو نوبل انعام دئے جانے کی مخالفت بھی کی تھی۔ بتادیں کہ پیشاور خیبر پختون خواہ صوبے کی راجدھانی ہے اس صوبے میں پاکستان کی اپوزیشن جماعت تحریک انصاف کی حکومت ہے جس کے سربراہ کرکٹر سے لیڈر بنے عمران خاں ہیں۔عمران خاں سے ستمبر میں نواز حکومت سے کہا تھا کہ وہ طالبان کے ساتھ جنگ بندی کریں اور انہیں اپنا دفتر کھولنے کی اجازت دیں۔ پاکستان میں طالبان کے تئیں نرم رویہ رکھنے کے الزام میں عمران خاں کو طالبان خاں بھی کہا جاتا ہے۔ یہ حملہ دہشت گردی کا سب سے خوفناک چہرہ ہے جس نے معصوم بچوں کو بھی نہیں بخشا۔
ان دہشت گردوں کیلئے بچوں اور عورتوں میں کوئی فرق نہیں ہے پھر وہ آئی ایس ہو یا بوکوحرام تنظیم یا القاعدہ یاپھر طالبان یہ واقعہ پاکستان کی پوری مشینری کی کمزوری کو اجاگر کرتا ہے جس نے طالبان کو پھلنے پھولنے کا پورا موقعہ دیا۔ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے اس حملے کو قومی ٹریجڈی بتایا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ہمارے اس پڑوسی ملک کو دہشت گردی کے اشو پرمحاسبہ کرنا چاہئے کیونکہ وہ خود بھی دہشت گردی کے مسئلے سے لڑ رہا ہے لیکن بھارت کے خلاف دہشت گردانہ سرگرمیوں کو انجام دینے والوں کو پناہ دیتا آیا ہے۔ حقیقت میں پیشاور میں ہوئے حملے سے دو دن پہلے سڈنی میں ایک سرپھرے کے ایک کیفے میں کچھ لوگوں کو یرغمال بنانے کا واقعہ بتاتا ہے کہ کیسے دہشت گردی ایک عالمی خطرہ بن گئی ہے۔ کہ کیسے ایک اکیلا دہشت گرد بھی لاکھوں لوگوں کی جان پریشانی میں ڈال سکتا ہے۔ 26 سال پہلے کشمیرمیں جو تشدد شروع ہوا وہ 50 ہزار لوگوں کی جان لے چکا ہے۔ یہ اعدادو شمار سرکاری ہیں۔ غیر سرکاری طور پر مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہوسکتی ہے۔مرے کتنے بھی ہوں یہ تو صاف ہے کشمیر میں اور دیش کے دیگر حصوں میں دہشت گردوں کا یہ موت کا ننگا ناج جاری رہے گا اور اس کے لئے صرف پاکستان ذمہ دار ہے۔ سرکاری اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ دہشت گردی کا اتنا بڑا عرصہ جس میں ابھی تک کوئی کمی نہیں آئی ہے 7 ہزارسے زیادہ ہمارے سکیورٹی ملازمین کی قربانی لے چکا ہے۔15 ہزار سے زیادہ زخمی بھی ہوئے ہیں۔ سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ اس عالمی دہشت گردی کا یہ ہے کہ یہ سبھی تنظیمیں اس دہشت گردی کو اسلام کے نام پر چلائی ہوئی ہیں۔ ایسے تو اور کوئی بھیڑ بکریوں کو بھی نہیں مانتا جیسے طالبانی آتنکیوں نے پیشاور عالمی اسکول میں معصوم بچوں کو مارا۔ ایسے خوفناک اور بربریت آمیز حملے کا تصور کرنا تک مشکل ہے۔
یہ اچھی بات ہے پاکستانی فوج نے اس خوفناک واردات کے بعد دہشت گردوں کے خلاف اپنی کارروائی جاری رکھنے کی بات کہی ہے لیکن اس میں شبہ ہے کہ پاکستانی فوج اور وہاں کی حکومت دہشت گردوں کے درمیان اچھے برے کا فرق کرنا بند کردے گی۔ یہ دنیا جانتی ہے کہ پاکستانی فوج اور سرکار طالبان دہشت گردوں کے خلاف تو سرگرم ہے لیکن تمام دیگر جہادی گروپوں کو سرپرستی دینے میں لگی ہوئی ہے۔ پاکستان کی دہشت گرد تنظیموں کے معاملے میں اپنی ٹال مٹول والی پالیسی کے ساتھ اپنے طرز فکر میں بھی وسیع تبدیلی جانے کی ضرورت ہے اور پاکستان کو اپنی ان پالیسیوں کو بدلنے کی سخت ضرورت ہے۔ بہتر ہو کہ قومی ٹریجڈی سے گزر رہا پاکستان اب ان غلطیوں کا احساس کرے جس کے چلتے وہ ایک عدم استحکام ،شورش اور خطرناک ملک کی شکل میں تبدیل ہوچکا ہے۔ پاکستان آج ایک ناکام اسٹیٹ بن گیا ہے جس کی قومی پالیسی دہشت گردی پر مبنی ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں