آندھرا پردیش کی تقسیم کا معاملہ نئے ٹکڑاؤ کی طرف بڑھ رہا ہے!
آندھرا پردیش ودھان سبھا نے تلنگانہ کے قیام سے متعلق بل کو ایک آواز میں خارج کر کانگریس رہنماؤں کے لئے بے چینی کی حالت پیدا کردی ہے۔پردیش کے دونوں ایوانوں نے آندھرا پردیش پنر گھٹن ایکٹ 2013 کو خارج کردیا اور اس سلسلے میں پیش پرستاؤ کو ایک آواز میں قبول کرلیا۔ایک ڈرامائی پیش رفت کے درمیان ودھان سبھا ادیکش ناویندلا منوہر نے راجیہ کے وزیر اعلی این کرن کمار ریڈی کی جانب سے پیش سرکار کے پرستاؤ کو پیش کیا ہے جس میں ایکٹ کو خارج کرنے کی بات کہی گئی تھی۔ اس پرستاؤ کو سوتی طور پر پاس کردیا گیا۔ اس معاملے پر لمبے وقت تک بھولنے کے بعدکانگریس کی مرکزی سرکار نے ریاست کے قیام کے بل کو سیدھے سنسد میں لاکر مسئلے کا مستقل حل ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی لیکن اسے شاید ہی اندازہ رہا ہوگا کے راجیہ کا سیاسی سمی کرن اس طرح پلٹا کھائے گا۔ آندھرا پردیش کے وزیر اعلی کرن ریڈی نے راشٹرپتی پرنب مکھرجی سے ایکٹ کو سنسد میں نہ بھیجے جانے کا انورودھ بھی کیا ہے۔ پرستاؤ میں کہا گیا ہے کہ راجیہ کا وبھاجن بنا کسی سہمتی اور ٹھوس وجہ سے کیا جارہا ہے اور ایسا کرتے ہوئے لسانی اور ثقافتی یکسانیت اور معاشی اور انتظامیہ جیسے پہلوؤں کی اندیکھی کی گئی ہے۔ اصل میں سی ایم کے سامنے کوئی اور راستہ بھی نہیں تھا کیونکہ 157 ودھایکوں نے پہلے ہی حلف نامہ دے رکھا تھا کہ وہ آندھرا پردیش کے بٹوارے کے خلاف ہیں۔ کیندر سرکار چاہتی تھی کہ یہ بل فروری میں ہونے والے پارلیمانی اجلاس میں پاس ہوجائے۔ اس کے پیچھے کانگریس کی منشا تلنگانہ راجیہ کے قیام کو عام چناؤ میں بھنانے کی تھی لیکن اپنی ہی ریاستی سرکار نے اس کے کئے کرائے پر پانی پھیردیا ہے۔ کانگریس جنرل سکریٹری دگوجے سنگھ نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ آندھرا پردیش ودھان سبھا کی جانب سے پرستاؤ کو خارج کرنے سے نئی ریاست کے قیام کا معاملہ معلق ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ (ایکٹ) خارج نہیں ہوا ہے۔
تلنگانہ ایکٹ پر (ودھان سبھا میں) وزیر اعلی کی جانب سے پیش کیا گیا ایک پرستاؤ سوتی ووٹ سے پاس ہوا ہے۔ ایکٹ پر ووٹ نہیں ہوا ہے۔ یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ راشٹرپتی کی جانب سے یہ ایکٹ اسے بھیجا گیا تھا اور جمعرات کو یہ ایکٹ راشٹرپتی کو لوٹایا جائے گا۔ اس سے آندھرا پردیش ودھان سبھا سے صفائی حاصل کرنے کی آئینی پابندی پوری ہوگئی ہے۔ اب یہ بھارت سرکار پر ہے کہ وہ ودھان سبھا کی جانب سے کی گئی سفارشوں اور سجھاؤں پر کیبنٹ کے غور کرنے کے بعد کسے پارلیمنٹ میں پیش کرے۔ ایسے میں جو لوگ تلنگانہ راجیہ کے قیام کی آس لگائے تھے انہیں اپنی منزل دور سرکتی نظر آرہی ہے اور ڈر تو اس بات کا ہے کہ اس چناوی ماحول میں آنے والے دنوں میں کہیں ریاست تقسیم کے حامیوں اور مخالفین میں ٹکراؤ کا نیا دور نہ شروع ہوجائے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں