کاٹجو لگتا ہے بولنے سے پہلے اب سوچتے نہیں

شری مارکنڈے کاٹجو جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہوا کرتے تھے تو آپ نے کئی لینڈ مارک فیصلے دئے جن کی آج بھی مثالیں دی جاتی ہیں۔ حالانکہ میڈیا میں بنے رہنے کی عادت تب بھی جسٹس کاٹجو میں تھی لیکن انہوں نے عہدے کی ساکھ کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچائی اور ان کے برتاؤ پر کسی نے انگلی نہیں اٹھائی لیکن جب سے وہ بھارتیہ پریس کونسل کے چیئرمین بنے ایک کے بعد ایک ایسا متنازعہ بیان دے رہے ہیں کے سمجھ سے باہر کے انہیں کیا ہوگیا ہے؟ کیوں وہ اس طرح کے فضول کے تنازعے کھڑے کرنے کے بیان دے رہے ہیں؟ اب آپ ان کے تازہ معاملے کو ہی لے لیجئے ۔ قابل ذکر ہے پچھلے دنوں مارکنڈے کاٹجو صاحب نے انگریزی اخبار ’دی ہندو‘ میں ایک آرٹیکل گجرات کی ترقی کے دعوؤں کے بارے میں کچھ سوال اٹھائے تھے۔ مگر یہاں تک بھی بات رکتی تو بات برداشت کرلی جاتی۔ لیکن وہ تو اس سے کہیں آگے بڑھ گئے۔ 2002ء کے گجرات دنگوں کے بارے میں لکھا کہ کوئی سرکار محض وکاس کے نگاڑے بجا کر اتنے بڑے دنگوں کے پاپ نہیں چھپا سکتی۔ کیونکہ ان دنگوں میں جتنی بربریت ہوئی تھی وہ نہ کسی معافی کے لائق ہے اور نہ بھولنے لائق ہے۔ میں یہ ماننے کو تیار نہیں ہوں کہ2002ء میں گجرات دنگوں میں مودی کا ہاتھ نہیں تھا۔ کاٹجو نے آگے لکھا کہ ہندوستانیوں کا بڑا طبقہ نریندر مودی کو جدید موسیٰ یا مسیحا کے طور پر پیش کررہا ہے جو دیش کی قیادت کرتے ہوئے لوگوں کو ایسی جگہ لے جائیں گے جہاں دودھ اور شہد کی ندیاں بہتی ہوں۔ مودی کو بھارت کے اگلے وزیر اعظم کے طور پر سب سے بہترین لیڈر کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ ایسا صرف بھاجپا یا سنگھ ہی نہیں کررہے ہیں بلکہ پڑھے لکھے نوجوانوں سمیت دیش کا مبینہ تعلیم یافتہ طبقہ بھی یہ ہی راگ الاپ رہا ہے۔ کاٹجو نے لکھا ’’حقیقت میں اس وقت گجرات کے مسلمان ڈرے ہوئے ہیں اگر وہ 2002ء پر کچھ بولیں گے تو ان پر حملہ ہوجائے گا۔ مودی کے حمایتی دعوی کرتے ہیں کہ گودھرا میں 59 ہندوؤں کے قتل کے رد عمل میں گجرات دنگے ہوئے، میں اس سے متفق نہیں ہوں۔ گودھرا کانڈ اب ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ دوسرے گودھرا کے لئے ذمہ دار لوگوں کی پہچان ہونی چاہئے اور انہیں سزا دی جانی چاہئے۔ آخر میں مارکنڈے کاٹجو نے دیش کے لوگوں سے اپیل تک کردی کے دیش کو وہی غلطی نہیں دوہرانی چاہئے جیسے جرمنی نے1933ء میں کی تھی یعنی ہٹلر کو اقتدار میں لاکر ۔کاٹجوکے سوال کا بھاجپا نیتا ارون جیٹلی نے کرارا جواب دیا ہے ۔ میں آج اس پر بحث نہیں کروں گا کیونکہ میرے سوال کاٹجو صاحب سے مختلف ہیں۔ کاٹجو صاحب آج کس عہدے پر ہیں اور کس لئے ہیں یہ یاد کرانا ضروری ہوگیا ہے۔ پریس کونسل آف انڈیا ایکٹ 1978 کی دفعہ7(1) میں صاف لکھا گیا ہے کہ کونسل کا چیئرمین (اس کیس میں ماکنڈے کاٹجو) پورے وقت کے لئے سرکاری ملازم ہوں گے۔ ان کی تنخواہ و دیگر سہولیات حکومت ہند کی طرف سے دی جائیں گی یعنی یہ فل ٹائم سرکاری افسر ہیں۔ کیا ہمیں کاٹجو صاحب کو بتانا پڑے گا کہ سرکاری افسر کیا کرسکتا ہے کیا نہیں۔ ضابطے نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ان کا بنیادی کام میڈیا پر نظر رکھنے کا ہے۔ چینلوں پر کوئی اعتراض آمیز چیز تو نہیں دکھائی جارہی ہے۔ اخبارات میں کوئی اعتراض آمیز آرٹیکل یا تبصرہ تو نہیں شائع ہورہا ہے۔ یہ ہے ان کا کام ، یہ نہیں کہ کبھی کہہ دیں کہ بہار میں نتیش کمار نے میڈیا کا گلا گھونٹ دیا ہے، یا ممتا بنرجی تاناشاہ بن گئی ہیں۔ شریمان جی کے جو منہ میں آتا ہے بغیر سوچے سمجھے بول دیتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ دیش میں99 فیصد لوگ بیوقوف ہیں تو کبھی کہہ دیتے ہیں کہ کشمیر کا پائیدار حل ہے بھارت۔ پاک کا انضمام۔ ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کاٹجو اتنے ناراض ہوگئے کیونکہ ان سے تلخ سوال پوچھے جارہے تھے انہوں نے صحافی کو گیٹ آؤٹ تک کہہ ڈالا۔ کیا کاٹجو یہ سب کانگریس پارٹی کے کہنے پر کررہے ہیں؟ ہمیں نہیں لگتا کہ کانگریس اتنی نا اانصافی سے کام لے گی اور اپنا مذاق بنوائے گی۔ یہ تو کاٹجو صاحب اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے اس طرح کی زبان بول رہے ہیں۔ جسٹس مارکنڈے کاٹجو کی باتیں اتنی ایک طرفہ اور غیر متوازن لگتی ہیں کہ ان کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ وہ آج ایک ایسے عہدے پر فائض ہیں جس عہدے کا وقار ایسے بیانوں سے بڑھتا نہیں گرتا ہے۔بجٹ سیشن شروع ہونے والا ہے۔ کاٹجو نے کانگریس پارٹی اور یوپی اے سرکار کا ایک اور درد سر بڑھا دیا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!