زی نیوز کے مدیروں کی گرفتاری نے کھڑے کئے کئی سوال

زی نیوز کے سینئر مدیر سدھیر چودھری اور زی بزنس کے مدیر ثمیر اہلووالیہ کی گرفتاری کے ساتھ ہی کئی سوال کھڑے ہوگئے ہیں۔ کیا جمہوریت کے دو ستون اپنی اپنی حیثیت اور اختیارات کا بیجا استعمال تو نہیں کررہے ہیں۔ دہلی پولیس کی کرائم برانچ نے طویل چھان بین کے بعد یہ گرفتاریاں کی ہیں۔ کاروباری جندل گروپ کے چیئرمین و کانگریسی ایم پی نوین جندل نے الزام لگایا تھا کہ کوئلہ گھوٹالے کی کوریج دبانے کے لئے ان مدیروں نے ان کی کمپنی سے100 کروڑ روپے کی مانگ کی تھی ۔ اس سے تنگ آکر جندل نے اس بات چیت کا اسٹنگ آپریشن کروالیا تھا۔ اس معاملے میں جانچ پڑتال کرنے والی پولیس ٹیم کا دعوی ہے کہ اس نے سی ڈی کی فورنسک جانچ کرا لی ہے۔ دوسری طرف زی نیوز نے جندل کے الزامات کی تردید کی ہے۔ زی نیوز کے سی ای او آلوک اگروال نے الزام لگایا کہ یوپی اے سرکارII اپنی غلطیوں کے چلتے میڈیا کو ڈرا دھمکا رہی ہے۔ اگروال اور زی گروپ کے وکیل آر کے ہانڈو نے گرفتاری اور اس کے وقت پر سوال کھڑے کرتے ہوئے کہا کہ جان بوجھ کر چھٹی والے دن سے پہلے گرفتاری کی گئی تاکہ انہیں ضمانت نہ مل سکے۔ ہانڈو نے کہا گرفتاری اس دفعہ کے تحت کی گئی ہے جو غیر ضمانتی جرائم پر لاگو ہوتی ہے نہ کے ضمانتی کے لئے۔ آلوک اگروال کا کہنا ہے دیش کی آزادی کے بعد 65 سال میں یہ دوسرا واقعہ ہے جب میڈیا پر پابندی لگانے کی کوشش کی گئی۔ حال ہی میں یہ وزیر نے انڈیا ٹو ڈے گروپ کو جم کر گالیاں دی ہیں اور عدالت میں گھسیٹا ہے۔ سوال یہ اٹھتاہے کہ کیا کانگریس اور منموہن سنگھ سرکار اپنے کالے کارناموں ک و دبانے کے لئے اب میڈیا کو ڈرا دھمکا رہی ہے یا پھر الیکٹرونک چینلوں سے سودے بازی کرکے کوئی بریکنگ نیوز پر روک لگوانا چاہتی ہے؟ یہ تو کسی سے پوشیدہ نہیں کہ کچھ کانگریسیوں کو تو اتنا غرور ہے کہ وہ کسی اور کو کچھ سمجھتے ہی نہیں۔ یہاں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ کچھ الیکٹرونک چینل والے بھی سیاسی پارٹیوں سے سودے بازی کرتے ہیں۔ہم تو یہ بھی دیکھ رہے ہیں کے زی نیوز کے دوسرے چینل ، پرنٹ میڈیا نیشنل براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن و پریس کونسل آف انڈیا ان کی حمایت نہیں کررہے ہیں کیا اس کا مطلب یہ ہے جندل کے الزامات میں دم ہے یا پھر زی چینل سے اتنی نفرت و جلن ہے؟ پریس کونسل آف انڈیا کے چیف جسٹس ایم کاٹجو نے کہا تحقیقات ہونے تک اس کا لائسنس منسوخ کردیا جانا چاہئے کیونکہ اس معاملے سے صحافیوں کی ساکھ پر آنچ آئی ہے۔ اس شے مات کے کھیل میں فی الحال پہلا راؤنڈ نوین جندل نے جیت لیا ہے۔ دہلی پولیس نے ساری کارروائی سی ایف ایس ایل کی رپورٹ کو بنیاد بنا کر کی ہے۔ یہ دہلی ہے یہاں صحافی کی حیثیت کو کم کرکے دیکھنا ممکن نہیں ہے۔ پولیس کو یہ بات اچھی طرح پتہ ہے کہ وہ کسی گٹکھا یا اس سے متعلقہ کمپنیوں اور ان کے اخبار کے مدیر کے خلاف کارروائی نہیں کررہی ہے وہ ایک خاص چینل کے خلاف کارروائی کررہی ہے جو اپنے محافظ مدیروں کو بچانے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔ ویسے بھی جب پارلیمنٹ کا اجلاس چل رہا ہو اتنے بڑے میڈیا گروپ پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے دس بار سوچے گی۔ گرفتار مدیروں کو اس بات کا یقین ضرور ہوگا کہ زی مالکوں نے ان کا ساتھ نہیں چھوڑا اور ان کے بچاؤ میں لگے ہوئے ہیں۔ بچاؤ کی بات سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ زی نیوز نے اپنے بچاؤ میں کیا ثبوت پیش کئے ہیں؟ کیا زی نے جندل کے سینئر افسروں سے بات چیت کو ٹیپ نہیں کیا؟ زی والے دعوی کررہے ہیں کہ گھنٹوں کی بات چیت میں کچھ منٹوں کا ہی ٹیپ جندل گروپ نے پیش کیا ہے باقی ٹیپ کہاں ہے؟ تین چار گھنٹوں میں ہوئی بات چیت میں 12-14 منٹ کا ٹیپ نکال کر پیش کرنے سے پوری کہانی واضح نہیں ہوتی۔ پھر اتنا بھی طے ہے بات چیت میں سودے بازی دونوں فریقوں کے درمیان ہوئی ہوگی۔پولیس نے ایک طرف کارروائی کیوں کی؟ کیا پھر اتنی سخت دفعات لگانا کیا ضروری تھا؟ یہ بھی سوال مناسب ہے کہ پیسے کا کوئی لین دین نہیں ہوا صرف باتیں ہی ہوئی ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس معاملے سے صحافیوں کی ساکھ پر آنچ آئی ہے لیکن یہ سوال بھی اہم ہے کہ کوئلہ گھوٹالے سے شروع گھوٹالوں کے خلاف سرکار نے اتنی پھرتی کیوں نہیں دکھائی؟ ایسے میں سرکار کی نیت پر سوال کھڑا ہونا فطری ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

  1. Aadab sir, zee news to abhi sirf aik choti si misaal hai, aur mujhko afsos ke sath kehna padh raha hai ke aaj desh main jo bhi kuch ho raha hai khasskar loot-khasot usmain media ka ahm rool hai, aaj kisi ke pass bhi janta ki aawaz uthane ke ke liye koi khbar nahin hai blki chad log hi channel ko chala rahe hain, main yeh kehte main zara bhi sharm nahin karunga ke aaj hamare desh main media hi aik aisa net work hai jahan log bina kisi paise ke kaam karne ko tayyar to rehte hi hain isse alag ulte paisa bhi dene ko tayyar rehte hain aur de rahe hain, pehle ki media ki soch main aur aaj ki media ki soch man zameen aur aasman ka farq tha, aaj bhi agar media apna kaam imandari se karne lage to yeh desh duniyan ke nakshe main apni aik alag hi pehchan banayega , aaj desh main bijli, pani, sadak, sikhsha, pardushan, berozgari aur bhirashtachar aasman ke saman hai, sarkari yojnayen banti to ghareeb ke liye hain lekin jati hain sarkaari ameron ke sath kuch media ke dalalon ke pait main ghareeb aaj bhi wahin na khada hokar aur neche ja raha hai, kyun kyunki hum apna kaam zimmedari se nahin kar rahe hain , meri soch main aaj bhi in samassiyaon ka aik hi kanoon se nibtara kiya ja sakta hai desh ki yeh samassiyan koi samssiyan nahin hain agar hum sahi qadam uthayen aur sochkar kuch karen. lekin aaj aisa nahin hai abhi to zee ke sampadak samne aaye hain deekho aage kya hota hai koun kon samne aayega... kamse kam mujhko to khushi hogi kuch waqt ke liye...

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!