کانگریس کا چناوی ہتھکنڈہ !کیش فار ووٹ

یوپی اے سرکار نے 2014 لوک سبھا چناؤ کی تیاری زور شور سے شروع کردی ہیں۔ وہ ایک بار پرانے آزمائے ہوئے فارمولے پر کام کرنے جارہی ہے۔ مرکزی حکومت نے اپنے ووٹ پکے کرنے کے لئے غریبوں کو سیدھے پیسوں کو بانٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کانگریس پارٹی کو امید ہے کہ جب سیدھے لوگوں کے کھاتوں میں پیسہ جمع ہوگا تو سارے گھوٹالوں، کرپشن، مہنگائی، بے روزگاری، بجلی پانی و قانون و انتظام سب کو بھول جائیں گے اور کانگریس پارٹی کو2014ء کے چناؤ میں ووٹ دیں گے۔ ایسا ممکن ہوسکتا ہے اور نہیں بھی۔ یوپی اے سرکار کی اسکیم کامیاب ہوئی تو دیش میں سبسڈی کا خاکہ 2013ء کے آخر تک بدل جائے گا لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں۔ پیچیدگیوں سے بھرا ہوا ہے۔ سبسڈی کے نقدی منتقلی یعنی اس کا فائدہ حاصل کرنے والوں کو براہ راست نقد مالی امداد دینے کی اسکیم میں سیاسی خطرہ بھی ہے۔ وزیر مالیات پی چدمبرم نے اعلان کیا ہے15 ریاستوں کے 57 اضلاع میں کیش ٹرانسفر کا کام 1 جنوری2013 ء سے ہوگا۔ سارے دیش میں اسے اگلے سال کے آخر تک پورا کرلیا جائے گا۔ پیر کی دیر رات ساتھی وزرا کے ساتھ ہوئی ملاقات میں وزیر اعظم منموہن سنگھ نے غریب لوگوں کے بینک کھاتے کھلوانے کی کارروائی آسان بنانے پر بھی زوردیا۔ وزیر اعظم نے اس اسکیم کو کامیاب بنانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنے پر زوردیا ہے۔ اس اسکیم کے تحت رسوئی گیس، مٹی تیل، طالبہ وظیفہ، منریگا مزدوری و کمزور طبقوں کو ملنے والی دیگر امداد کو نقدی شکل میں ان تک پہنچایا جائے گا۔ سرکار کی اسکیم کے مطابق آدھار کارڈ کے ذریعے اس اسکیم کا فائدہ اٹھانے والوں کے بینک کھاتے کھولے جائیں گے جس میں ان کے حصے کی رقم ہر مہینے ٹرانسفر کردی جائے گی۔ اس یوجنا کے کامیاب ہونے میں کئی انتظامی مشکلیں آسکتی ہیں۔ صاف ہے یہ اسکیم کامیاب ہو اس کے لئے بیشک تکنیکی اہلیت و اعلی درجے کی انتظامی صلاحیت کی ضرورت ہوگی۔ اسے بھارت کے بینکنگ نظام کے لئے ایک سخت آزمائش مانا جائے گا کیونکہ آدھار کارڈ تقسیم میں ابھی کئی دشواریاں اور مشکلیں آرہی ہیں اس لئے یہ سوال بدستور قائم ہے کہ کہیں امداد پانے والے حقدار بہت سے لوگ انتظامی ناکامیوں کے چلتے فائدے سے محروم تو نہیں ہوجائیں گے؟ پھر غذائی سبسڈی کا اشو بھی ہے۔ سبسڈی کا پیچھا چھڑانے کی کوشش کرتی آئی سرکار کی اس معاملے میں تیزی اور ان کی طے میعاد کو دیکھتے ہوئے یہ قیاس لگایا جانا فطری ہے۔ کیا اگلے چناؤ سے اس کا سیدھا تعلق ہے؟ برازیل کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یہ کہا جانے لگا ہے کہ نقدی سبسڈی حکمراں پارٹی کو چناوی فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ بہت سی سماجی تنظیموں نے نقد پیسے کو لیکر کئی اندیشے ظاہر کئے ہیں ان میں سب سے اہم سوال یہ ہے غریبوں کو نقد پیسہ دینے کو کیسے یقینی بنایا جائے گا۔ اس کا مقصد اپنی سہولت کے حساب سے استعمال کرنا ہوگا۔ بہت سے غریب ادھاراور قرض میں دبے رہتے ہیں جیسے ہی پیسہ ان کے کھاتے میں آئے گا بقایا وصولنے والے ان کے سر پر سوار ہوجائیں گے۔ ایک دوسرا اندیشہ یہ بھی ہے کہ سبسڈی کے طور پر ملنے والی نقد رقم یا دیگر دوسری مراعات دوسرے غیر ضروری خرچوں کی بھینٹ نہ چڑھ جائیں؟ جبکہ سرکاری مدد کے چلتے اگر ضرورتمندوں کے گھر میں اناج آتا ہے تو یہ بھروسہ انہیں ضرور رہے گا کہ جینے کے لئے اس کے خاندان کی بنیادی ضرورت پوری ہوگئی ہے۔ آدھار کارڈ کے استعمال سے سرکار نے یہ مان لیا ہے کہ غیر یقینی کے سارے راستے بند ہوجائیں گے۔مگر جہاں تمام بی پی ایل خاندانوں کی پہچان کو لیکر بہت ساری گڑ بڑیاں چل رہی ہیں وہاں اس بارے میں کم سے کم ہم تو بے حبر نہیں ہوسکتے پھر یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ابھی تک دیش کی آدھی دیہی آبادی کے پاس کوئی بینک کھاتہ نہیں ہے نہ بہت سارے دیہاتی علاقوں میں بینکنگ خدمات ہیں۔ کیا محض ڈیڑھ سال میں یہ کمی دور ہوپائے گی؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!