ساتھی کو بچانا تو دور رہا ،بدمعاشوں کو فرار ہونے کا موقعہ دیا

واردات رات میں قریب2.10 بجے کی ہے۔ ہیڈ کانسٹیبل رام کرشن اپنے ساتھی سپاہی جے کے سنگھ کے ساتھ جوں ہی بارڈرپر گاڑیوں کی چیکنگ کررہا تھا اسی بیچ نائٹ پیٹرولنگ پر آئے ایس آئی خزان سنگھ اور ہیڈ کانسٹیبل وجیندر بھی وہاں پہنچ گئے۔خزان سنگھ ٹکٹ پر رجسٹر کی جانچ کرنے لگا تبھی ہریانہ کی طرف سے ایک سفید رنگ کی ہونڈا سٹی کار وہاں آئی ۔ رام کرشن نے کار کو روک کر ڈرائیور سے اس کے کاغذات کی مانگ کی۔اسی بات پر دونوں کے بیچ بحث ہونی لگی۔ اسی بیچ بدمعاشوں نے رام کرشن پر گولیاں داغ دیں۔ فائرنگ کرتے ہوئے بدمعاشوں نے کار بیک کی اور فرار ہوگئے۔ یہ واردات ایتوار کی رات کی ہے۔ موقعہ واردات کے اطراف میں کھیت واقع ہیں اس وجہ سے کار کو دوری تک دوڑانے میں کافی دقت آئی۔لیکن بدمعاشوں کے پاس اتنا وقت تھا کہ ان میں سے دو نے باہر نکل کر گاڑی کودھکا دے کر اسے باہر نکالا اور اس میں بیٹھ کر فرار ہوگئے۔ اگر پولیس والے چاہتے تو ان بدمعاشوں کو پکڑا جاسکتا تھا۔ ان پولیس ملازمین کے پاس رائفل ،پستولیں بھی تھیں ۔ یہ اطلاع ملی ہے کہ دیوالی تہوار کے درمیان بھی ہیڈ کانسٹیبل رام کرشن نے رات میں ڈیوٹی کے وقت ایسے ہی بدمعاشوں کی مقابلہ کیا تھا۔ گاڑی کی جانچ کرتے وقت بھی ایک بدمعاش نے ان پر بندوق تان دی تھی تب بھی رام کرشن نے ہمت کا ثبوت دیا جس وجہ سے بدمعاش اپنی گاڑی ہی موقعہ پر چھوڑ کر فرار ہوگئے تھے۔ اس پورے واقعہ کے پیش نظر پولیس کے سینئر افسر اپنوں کی حمایت لیتے ہوئے دلیل دے رہے ہیں کہ یہ واردات اتنے کم وقت میں ہوئی کہ وہ کچھ سمجھ نہیں پائے۔ ذرائع کی مانیں تو بھاگتے وقت بدمعاشوں کی پستول موقعہ واردات پر ہی گر گئی تھی۔ اس کے باوجود چوکی پر موجود دیگر پولیس والوں نے بدمعاشوں کو پکڑنے کی ہمت نہ دکھائی۔ ایسے میں رام کرشن کے رشتے دار موقعہ واردات پر موجود پولیس ملازمین کے طریقہ کار پر سوال اٹھاتے ہیں تو اس میں کیا غلط ہے۔ رام کرشن کے بھائی کا کہنا ہے کہ بدمعاشوں نے ان کے بھائی پر فائرنگ کی تھی لیکن کسی پولیس والے نے ان کی مدد نہیں کی۔ یہاں تک کہ پولیس ملازمین نے بدمعاشوں کا پیچھا کرنے کی کوشش نہیں کی۔
بدمعاشوں سے مقابلہ کرتے ہوئے آپ کا ساتھی زخمی ہوجائے اور اس کے تین مسلح پولیس والے تماشائی بنے رہے؟ کیا دہلی پولیس ملازمین کو یہ سکھایا جاتا ہے؟ شہید رام کرشن وجے انکلیو ،نانگلوئی میں رہتا تھا ، اس کے گھر میں بیوی سنی دیوی اور دو بچے نیرج اور دھیرج ہیں۔ نیرج ایم ٹیک کا طالبعلم ہے جبکہ دھیرج انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کررہا ہے۔1982 ء میں دہلی پولیس میں بطور سپاہی بھرتی ہوا رام کرشن بنیادی طور سے بہادر گڑھ کے یودیان گاؤں کا رہنے والا تھا۔ ہم اس بہادر جوان کو اپنی شردھانجلی دیتے ہیں اور مانگ کرتے ہیں کہ اس دن تعینات وہاں اس کے ساتھی پولیس والوں سے جواب طلب کیا جائے نہ کے ان کی جانب سے بے تکی دلیلیں سنی جائیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!