اروندکجریوال کی عام آدمی پارٹی
خود کو کرپشن کے خلاف کھڑا ایک عام آدمی بتانے والے اروند کجریوال نے اب اپنی پارٹی کا نام بھی طے کرلیا ہے۔ اور اپنی سیاسی پارٹی کے لئے بھی نام ’عام آدمی پارٹی‘ رکھ لیا ہے۔ ایتوار کو 300 سے زیادہ بانی ممبران کی میٹنگ میں آئین کو منظوری دی گئی۔ پارٹی نے پیر سے باقاعدہ کام بھی شروع کردیا ہے۔ کجریوال کا دعوی ہے کہ اس کے ذریعے وہ سیاست میں عام لوگوں کو خاص جگہ دلوائیں گے۔ ابھی تک تو غیر سیاسی تنظیم کی شکل میں ہلچل مچانے اور سرخیاں بٹورنے میں کامیاب رہی ٹیم کجریوال یعنی عام آدمی پارٹی کے سامنے چیلنج ا س لئے زیادہ دکھائی پڑ رہے ہیں کیونکہ اس سے توقعات میں اضافہ ہوا ہے اور ان توقعات کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انا ہزارے کے سپہ سالار بن کر اپنی پہچان بنانے والے کجریوال نے کچھ ایسے اشو اٹھانے کی ہمت دکھائی جو آج تک کسی سیاسی پارٹی نے نہیں اٹھائے۔ اس سے جنتا میں نہ صرف ان کی الگ پہچان بنی بلکہ توقعات بھی ان سے بڑھ گئی ہیں۔ اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی دوسری سیاسی پارٹیوں سے الگ کیسے ہے؟ اس سوال کے جواب میں کجریوال نے بتایا کہ ہم سارے چندے اور خرچ کی تفصیل یقینی طور پر عام کریں گے۔ہماری پارٹی میں ایک خاندان کے ایک ہی ممبر کو ہی ٹکٹ ملے گا یا عہدہ ۔ ہر پرائمری یونٹ کو دو کنوینروں میں ایک خاتون کا ہونا ضروری ہوگا۔ پارٹی حکام اور ورکنگ ممبران پر الزامات کی سماعت کے لئے ایک انٹرنل لوک پال ہوگا۔ کجریوال کے ذریعے بنائی گئی نئی پارٹی سے تنازعے کا شروع ہونا بھی فطری تھا۔ کانگریس پارٹی کے ترجمان اور وزیر اطلاعات منیش تیواری نے کہا جمہوری دیش میں پارٹی بنانا سبھی کا حق ہے۔ دیش میں300 پارٹیاں ہیں ، ایک اور شامل ہوگئی تو جمہوریت اور مضبوط ہوگی۔ 1885 سے ہی ’عام آدمی‘ کانگریس سے ہی جڑا رہا ہے اور کوئی بھی اسے یرغمال نہیں بنا سکتا۔ ادھر بھاجپا ترجمان مختار عباس نقوی نے کہا کجریوال کو ہماری نیک خواہشات۔ وہ پارٹی کا نام ’عام آدمی ‘ رکھیں یا خاص۔ چناؤ کے میدان میں آئے ہیں اب تو جو کہتے آئے ہیں اسے پورا کرنے کا وقت آگیا ہے۔ جن اشوز کو لیکر اب تک وہ سب کو کٹہرے میں کھڑا کرتے رہے ہیں اگر انہیں درست کرسکیں تو ہمیں خوشی ہوگی۔ ویسے کجریوال کے حق میں یہ ضرور جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی عام آدمی پارٹی میں قومی سطح پر لوک پال اور ریاستی و ضلع سطح پر لوک آیکت بنانے کی سہولت رکھی ہے۔ اس میں ریٹائرڈ جج ہوں گے۔ پارٹی کے ایگزیکٹو ممبرز کے خلاف ان سے شکایت کی جاسکے گی۔ پہلی بار کسی پارٹی میں اگر نیشنل کونسل ہو یا نیشنل ایگزیکٹو ممبروں کو واپس بلا سکے گی۔ اسٹیٹ کونسل ریاستوں میں بھی ایگزیکٹو ممبروں کو طلب کر سکے گی۔ فی الحال ان یقین دہانیوں پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے لیکن انہیں یہ احساس ہونا چاہئے کہ اب انہیں بہت سے سوالوں سے مقابلہ آرا ہونا پڑے گا جن سے ابھی تک ان کا واسطہ نہیں پڑا تھا یا ان کے جواب دینے کی انہیں ضرورت نہیں پڑی۔ ابھی عام آدمی پارٹی کا پورا خاکہ اور ان کے نقطہ نظر آنا باقی ہے لیکن اس کی تشکیل جس طرح سے لیفٹ پارٹیوں کی طرز پر ہوئی ہے اور ان کے اشوز پر سماجوادی اور لیفٹ پارٹی رجحان ظاہر کیا گیا ہے اس پر کچھ شبہات کے سوالات ہونا فطری ہے۔ مثال کے طور پر ان کی نئی پارٹی کا استعمال خاص کر بڑی صنعتی پروجیکٹوں و ایف ڈی آئی جیسے اشوز پر ان کی کیا پالیسی ہوگی؟ اروند کجریوال پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ وہ اشو تو اٹھاتے ہیں لیکن انہیں آگے نہیں بڑھاتے اور انہیں آخر تک نہیں لے جا پاتے ، کیا پارٹی میں بھی یہی رخ رہے گا؟ عام جنتا کے مفادات کو عام ریلیوں میں اٹھانا اور بات ہے لیکن ان پر بنیادی طور پر عمل کرانازیادہ مشکل ہے۔ چناؤ لڑنے کے لئے ہر طرح کی مہارت کی ضرورت ہوتی دیکھنا یہ ہوگا کجریوال کو چندہ کہاں سے اور کتنا ملتا ہے؟ پورے دیش میں ورکروں کی جماعت کھڑا کرنا بھی کم چیلنج نہیں ہے۔ لیکن ان سب دقتوں کے باوجود ان کی ’عام آدمی پارٹی‘ کی اس لئے تعریف کی جائے گی کیونکہ فی الحال ان کے طور طریقے اور ارادے دیگر سیاسی پارٹیوں سے الگ دکھائی پڑتے ہیں۔ (انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں