مہنگائی اور ملاوٹ نے دیوالی کا مزہ کرکرا کردیا




Published On 26th October 2011
انل نریندر
اس سال کی دیوالی آج تک کی سب سے مہنگی دیوالی ہوگی۔ یہ لگاتار تیسرا سال ہے جب کھانے پینے کے سامان کی آسمان چھوتی قیمتوں کے بیچ عام لوگ یہ تہوار منانے کو مجبور ہیں۔ سبزیوں اور دوسری روز مرہ کی کھانے پینے کی چیزوں کے داموں میں تیزی نے اس بار کی دیوالی کو پھینکا کردیا ہے۔ اس سال کے شروع سے ہی مہنگائی کا جو دور شروع ہوا وہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے، رہی سہی کثر ملاوٹ کی سرخیوں نے پوری کردی ہے۔آئے دن پکڑے جانے والی ملاوٹی مٹھائی سے لوگ اس طرح سے خوفزدہ ہیں کہ لوگ مٹھائیوں کی خریداری سے زیادہ ڈرائی فروٹ اور چاکلیٹ اور ریڈیمیڈ گفٹ پیک خریدنے پر پیسے خرچ کرنے میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔ ڈرائی فروٹ دوکانداروں کی مانیں تو پچھلے دوسالوں سے اس کاروبار میں زیادہ اضافہ ہوا ہے وہیں خوردنی ماہرین کی مانی جائے تو ان میں ملاوٹ کے آثار بہت کم رہتے ہیں جس سے صحت پر کوئی برا اثر نہیں پڑا۔ غور طلب ہے کہ پچھلے سال کی طرح اس بار بھی جانچ ایجنسیوں کی مدد سے چھاپے ماری کے دوران نقلی ماوا ،مٹھائیاں پکڑی گئیں۔ اس بار مٹھائی کی بڑی دکانیں خالی پڑی ہیں۔ کئی مالک تو ایک ہی دیوالی میں کہاں تو کوٹھیاں کھڑی کرلیتے تھے اور کہاں اکا دکا ہی گراہک آرہے ہیں۔ حکومت اور محکمہ صحت کو ایک قانون بنانا چاہئے کہ ہر حلوائی کو ڈبے پر یہ لکھنا چاہئے کہ وہ مٹھائی کو بنانے میں کن کن چیزوں کا استعمال کررہا ہے اور اس سامان کی انہیں گارنٹی دینی ہوگی۔ بیرونی ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس سے گراہک کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا کھا رہا ہے۔ اس میں جو چیزیں پڑی ہوئی ہیں وہ صحت کے حساب سے نقصاندہ تو نہیں ہیں، اس سے بکری بھی بڑھے گی۔ چراغوں کے اس تہوار میں دیپوں کا رواج کم ہورہا ہے اور بجلی کی روشنی زیادہ لوگ اپنے گھروں میں کرتے ہیں۔ اس کے لئے چھوٹی چھوٹی بلبوں کی لڑیاں لگانا پسند کرتے ہیں اور اس سیکٹر میں بھی چین نے اپنا مال اتاردیا ہے۔ بجلی کی لڑیوں سے لیکر پٹاخوں یہاں تک کہ بھگوانوں کی مورتیاں بھی چین سے آرہی ہیں۔
اس دیوالی میں یہ سوال کھڑا ہوگا کہ کیا پٹاخے چلائے جائیں یا ماحولیات کا خیال رکھتے ہوئے صرف دیئے جلا کر دیوالی منائیں۔ پچھلے کئی برسوں سے ایک تحریک شروع ہوگئی ہے کہ پٹاخوں سے توبہ کی جائے اور ہوا کو آلودہ ہونے سے بچایا جائے۔ کئی لوگوں نے اس مہم کے اثر سے پٹاخے چلانا کم کردیا ہے۔ دوسری طرف ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو 10 ہزار یا اس سے زیادہ کی ایک لڑی پھونک دیتے ہیں۔ سائنسدانوں کی مانیں تو دیوالی جیسے تہوار گلوبل وارمنگ کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ پٹاخے جلانے سے اگر گلوبل وارمنگ نہ بھی ہوتی ہو تو ہمارے آس پاس جو سانس یا قلب امراض کے مریض ہوتے ہیں انہیں تکلیف ہوتی ہے۔ بیمار اور بوڑھے لوگوں کو ضرور دقت ہوتی ہے۔ جانور یا چرند پرند اس سے تکلیف پاتے ہیں۔پہلے پٹاخے کم چلتے تھے لیکن اس کا مقصد خوشی منانا تھا۔ اب پیسے کا مظاہرہ زیادہ ہوگیا ہے۔ ہم سب کو دیپوں کے اس تہوار پر اپنی مبارکباد دیتے ہیں۔ اور امید کرتے ہیں کہ آپ کی دیوالی شبھ اور محفوظ ہے۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Deewali, Inflation, Price Rise, Vir Arjun 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!