سرو شکشا ابھیان کی حقیقت




Published On 28th October 2011
انل نریندر
میرا بھارت مہان! ساری دنیا میں اس وقت بھارت کا ڈنکا بج رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بھارت کی اقتصادی حالت موجودہ وقت میں دنیا کی سب سے تیزی سے بڑھنے والی اقتصادی حالت ہے لیکن زمینی حقیقت جب ہم دیکھتے ہیں تو تھوڑی حیرانی ضرور ہوتی ہے کہ آج بھی ایجوکیشن جیسا اہم حلقہ اتنا پچھڑا ہے؟ تعلیم کا حق قانون اور سرو شکشا ابھیان کے باوجود پچھلے سال قریب 82 لاکھ بچوں کا اسکول میں داخلہ نہیں ہوپایا ہے۔ اتنا ہی نہیں اسکولوں کی بدانتظامی کا عالم یہ ہے کہ لڑکیوں کے 41 فیصدی اسکولوں میں ٹوائلٹ تک نہیں ہیں۔ راجیوں میں پرائمری شکشا پر تبصرہ کرنے کے لئے انسانی بہبود برائے ترقی وزیر شری کپل سبل کی صدارت میں راجیوں کے تعلیمی وزیروں کی ایک میٹنگ میں بچوں کے اسکولوں پر سنجیدگی سے تبصرہ ہوا۔ 6 سے14 سال تک کے بچوں کو ضروری طور پر سکولوں میں بھیجنے کے لئے تعلیم کا حق قانون نافذ کیا گیا تھا۔ اس کے نافذ ہونے کے ایک سال سے زیادہ کا وقت گذر جانے کے باوجود پرائمری شکشا کی حالت تسلی بخش نہیں ہے۔ سکولوں اور ٹیچروں کی کمی تو الگ موضوع ہے حالات یہ ہے کہ سروشکشا ابھیان کی بھی ہوا نکل گئی ہے اور مرکزی سرکار کو اسی سے ملتا جلتا نیا ابھیان چلانے کا فیصلہ لینا پڑا۔ مگر اس میں فرق یہ ہوگا کہ اسے غیر سرکاری مشینری سے ملایا جائے گا۔ اب پرائمری سکولوں میں اس مشینری کا سیدھا دخل رہے گا۔ اس مشینری کے ورکروں کا کام ہوگا کہ وہ سکول اور سماج کے درمیان پل کا کام کریں گے۔ اگر کسی گاؤں میں کوئی بچہ سکول نہیں جارہا ہے تو اس کی جانکاری علاقے کے سکول کو دینی ہوگی اور بچے کے گھر والوں کو بیدار کرنا ہوگا کہ وہ اپنے بچے کو سکول بھیجیں۔ سبل نے بتایا کہ اس ابھیان کا نام ''تعلیم کا حق'' رکھا گیا ہے۔ جس کی شروعات پردھان منتری 11 نومبر کو کریں گے۔ اس ابھیان کے تحت13 لاکھ سکولوں کو شامل کیا جائے گا جن کے پرنسپلوں کو پردھان منتری کی اپیل جاری کی جائے گی جس کا پیغام ہوگا کہ وہ کسی بھی بچے کو سکول جانے سے محروم نہ ہونے دیں۔
کپل سبل نے راجیوں کے تعلیمی وزیروں سے کہا ہے کہ وہ پرائمری سکولوں کی حالت ٹھیک کریں۔ انہوں نے کئی راجیوں میں اب بھی تعلیم کا ادھیکار قانون نافذ نہ کرنے پر افسوس ظاہر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک سال میں کئی بار راجیوں سے اپیل کی جاچکی ہے مگر صرف18 راجیوں نے ہی اس قانون کو نافذ کیا ہے۔ مہاراشٹر، پشچم بنگال، گجرات اور تاملناڈو جیسے کئی بڑے راجیہ ایسے ہیں جنہوں نے اس قانون کو اب تک نافذ نہیں کیا ہے۔ اس کے چلتے لاکھوں بچے سکول نہیں جارہے ہیں۔سکولوں کی بلڈنگوں کی بدحالی اور ٹیچروں کی کمی پر بھی دھیان دینا بہت ضروری ہے۔ اس وقت قریب 44 لاکھ ٹیچر پورے دیش میں کام کررہے ہیں۔ ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ شری کپل سبل نے اس حقیقت کو اجاگر کرنے کی ہمت دکھائی۔ ہم امید کرتے ہیں کہ وہ دن پورے دیش میں جلد آئے گا جب ہر گاؤں میں کوئی بچہ سکول جانے سے محروم نہیں ہوگا۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Education, India, Kapil Sibal, Prime Minister, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!