اناؤ متاثرہ کو انصاف دلانے کا سوال!
یہ انتہائی دکھ اور تشویش کاموضوع ہیں کہ قانونی نکتوں کا فائدہ اٹھا کر آبرو ریزی جیسے گھناونے جرائم کےقصور وروں کو بھی رعایت دے دی جاتی ہے ۔غور طلب ہے۔یوپی کے اناؤ میں نابالغ لڑکی سے آبرو ریزی کے معاملے میں سال 2019 میں سابق بھاجپا ممبر اسمبلی لکدیپ سنگھ سینگر کو عمر قید کی سزا ہوئی تھی ۔عدالت نے آئی پی سی کے دفعہ کے تحت آبرو ریزی کے معاملے اور بچے بچیوں سے جنسی استحصال قانون پاسکوکے تحت سزا دی تھی۔تب یہ واردات دیش بھر میں بھاری تشویش اور ناراضگی کا سبب بنی تھی۔اگر اب دہلی ہائی کورٹ نے سنیگر کی سزا کو معطل کرنے کا حکم دیا لیکن معاملہ سپریم کورٹ پہنچا اور اس نے عدالت کے فیصلے پر روک لگا دی۔ سینگر کو عمر قید قصوروار ثابت ہونے کے بعد نچلی عدالت نے حکم سنا یا تھا اور صاف کہا تھا سینگر کو زندگی بھر جیل میں رہنا ہوگا۔ دہلی ہائی کورٹ نے2017 کےاس ناؤ بدفعلی معاملے میں بھاجپا سے اخراج نیتا کلدیپ سنگھ سینگر کو جیل کی سزا معطل کر کے ضمانت دے دی تھی ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف جنتا سڑکوں پر اتر آئی اور انصاف کی اپیل کرنے پر مجبور ہو گی۔ متاثرہ کے خاندان اور دیگر خاتون ورکروں نے جمعہ کے روز دہلی ہائی کورٹ کے باہر سینگر کی ضمانت کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا اور اپنی ناراضگی ظاہر کی۔جنتا کے احتجاج کر دیکھتے ہوئے سی بی آئی نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف جمعہ کو ہی سپریم کورٹ میں خصوصی اجازت عرضی دائر کی ۔ادھر وکیل انجلی پٹیل اور پوجا شلپکار نے بھی سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی ہے جس میں دہلی ہائی کورٹ کے حکم پر روک لگانے کی مانگ کی گئی دلیل دی گئی کی ہائی کورٹ نے اس سچائی پر غور کئے بے غیر حکم پاس کر دیا کی ٹرائل کورٹ نے کہا تھا کہ سینگر کو اپنی باقی زندگی جیل رہنا چاہئے۔ہائی کورٹ نے سینگر کو ضمانت کی سزا معطل میں قانون اور دلیل میں سنگین خامی ہے جب کہ سنگین کرائم میں اسکی شمولیت کو دھیان نہیں دیا گیا۔ در اصل اس واردات کی بعد متاثرہ کو جن حلات کا سامنا کرنا پڑا اور اس کو زندگی بھر جس طرح کے خطرات تھے وہ بے حد غیر متوقع تھے مگر اس سے صاف تھاکہ سنگین جرائم کے بعد ایک اونچے رسوخ والا ملزم متاثرہ کو خاموش کرنے کیلئے کس حد تک جا سکتا ہے ۔اس دوران متاثرہ کے والد کی جان چلی گئی ایک ٹرک نے اس کار کو ٹکر مار دی جس میںوہ گھر والوں کے ساتھ جارہی تھی۔اس واردات میں متاثرہ اور اس کا وکیل بری طرح زخمی ہو گئے جب کہ اسکی دو خالاؤں کی موت ہو گئی۔سمجھا جا سکتا ہے کہ اس پورے معاملے میں متاثرہ کو کس طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑا ۔جب کسی رسوخ والے کرمنل کی سزا کو لیکررعایت برتنے کی خبر آتی ہے تب یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ آخر قانون کے کام کرنے کا طریقہ کیا ہے؟کہا جاتا ہے کہ انصاف صرف ہونا ہی نہیں چاہئے بلکہ انصاف ہوتے ہوئے نظر بھی آنا چاہئے امید ہے کہ سپریم کورٹ میں متاثرہ اور اسکے خاندان کو سینگر کی رہائی کے حکم پر روک لگاکر ایک طرح سے انصاف دلایا ہے۔
انل نریندر
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں