یہ ڈاکٹرس آف ڈیتھ !

راجدھانی کے اسکولوں اور اسپتالوں کے آتنکی خطرے سے متعلق کئی سرکاری عمارتوں کو بم سے اڑانے کی دھمکی بھرے ای میل 30 اپریل 2024 سے مسلسل آرہے ہیں ۔اس وجہ سے ڈیڑھ سال سے دہلی این سی آر میں دہشت کا ماحول بناہوا ہے ۔لیکن مرکزی جانچ ایجنسیوں سے لے کر خفیہ ایجنسیاں اس کی تہہ تک نہیں پہنچ پائیں ۔اچانک پیر کو 10 نومبر کی شام لال قلعہ میٹرو اسٹیشن کے گیٹ نمبر 1 کے پاس زوردار دھماکہ نے دیش کو ہلا کر رکھ دیا ۔یہ 14 سال بعد راجدھانی میں ہوا بڑا بم دھماکہ تھا ۔یہ ہماری خفیہ ایجنسیوں کی زبردست ناکامی تھی ۔چونکانے والی بات یہ ہے کہ یہ دھماکہ پیر کو فرید آباد کے پاس ایک کشمیری ڈاکٹر کے کرائے کے مکان سے 360 کلو گرام امونیم نائیٹریٹ اور اے کے 47ر ائفل سمیت ہتھیار برآمد ہونے کے کچھ گھنٹوں بعد ہوا ۔دراصل دیش بھر میں 15 دن تک چلی کاروائی کے ذریعے جموں وکشمیر پولیس نے جیش محمد اور انصار غزوة الہند سے وابستہ ایک آتنکی سازش کا پردہ فاش کیا جس میں کئی آتنکی سازش جس میں ڈاکٹر سمیت 8 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ۔ان سے 2900 کلو دھماکو سامان ضبط کیا گیا ۔اس کے تار کشمیر ،ہریانہ ،اتر پردیش تک جڑے ہوئے ہیں ۔اس سے صاف ہوتا ہے کہ دیش بھر میں کئی آتنکی سرگرم ہیں جو دہشت پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں ۔دہلی میں پیر کی شام جو دھماکہ ہوا اس میں 12 لوگوں کی جان جا چکی ہے اور درجنوں زخمی ہوئے تھے ۔دھماکہ کو انجام دینے والا جہادی ذہنیت کا ایک ڈاکٹر ہے جموں وکشمیر پولیس نے ہریانہ پولیس کے ساتھ مل کر فرید آباد کے فتح پر تانگا گاو¿ں میں داکٹر مزمل شکیل کے ذریعے کرائے پر لئے گئے دو گھروں پر چھاپہ ماری کے دوران 2900 کلو گرام آئی ای ڈی بنانے کا سامان بھی ضبط کیا تھا۔باوجود اس کے شام کو ہی لال قلعہ میں بلاسٹ ہو گیا ۔ایسے میں سوال اٹھ رہے ہیں کہ ٹیرر ماڈیولس کو ڈاکٹر س آف ڈیتھ کہا اس معاملے کی کہانی پہلے ہی لکھ چکے تھے یا پھر اپنے ساتھیوں کی گرفتاری کے بعد بدلہ لینے کے لئے اس بلاسٹ کی پلاننگ کی گئی کیوں کہ کار میں سوار پلوامہ کا ڈاکٹر عمر محمد بھی اسی سازش کا حصہ بتایاجارہا ہے ۔حالانکہ معاملے پر ابھی کھل کر کچھ نہیں بول رہا ہے ۔اب سرکار نے بھی یہ مانا ہے کہ یہ ایک آتنکی حملہ تھا جس کے تار جیش محمد سے جڑتے ہیں۔جتنی مقدار میں دھماکو سامان برآمد ہوا ہے اس سے صاف تھا اس کی سازش کچھ بڑا کرنے کی تھی جس طرح عمر نے کار کو لال قلعہ کی پارکنگ میں گھنٹوں کھڑا رکھا اور پھر لال قلعہ کے جین مندر کے پاس بلاسٹ ہو گیا ایسے میں وہاں کی سیکورٹی انتظام پر بھی سوال کھڑے ہورہے ہیں۔کیوں کہ اتنی سرکشا ہی فرید آباد میں دھماکہ ہوا تھا ۔باوجود اس کے بعد لال قلعہ پر سیکورٹی انتظام کا یہ حال تھا ۔کہ باہر گاڑیاں کھڑی تھیں اور آتنک کا چہرہ اب اور زیادہ پراسرار اور خوفناک ہوتاجارہا ہے ۔سب سے بڑی تشویش کی بات یہ ہے کہ سادگی کا نقاب اوڑھے یہ چہرے آپ کے آس پاس ہی سرگرم ہیں کہ تھوڑی سی لاپرواہی ہوئی تو یہ جرائم پیشہ بھی اپنا شکار بنانے میں دیر نہیں کریں گے ۔فرید آباد میں دھماکو سامان کی برآمدگی اور دہلی میں لال قلعہ کے پاس ہوئے دھماکہ سے ثابت ہو گیا ہے کہ دیش آتنکی کی نئی پودکٹر پنتھی نظریہ کی اکڑ میں ڈوبی ہے۔ڈاکٹروں سے پوچھ تاچھ آتنکی نیٹورک میں دیش کے کئی حصوں میں قہر برپانے کی خوفناک سازش رچی تھی ۔سہارنپور کے مشہور ہسپتال میں تعینات ڈاکٹر عادل کی ایک ماہ کی چٹھی پر تھا اور اس دوران پوسٹر لگانے میں چوک ہی دیش کی سیکورٹی ایجنسیوں کے لئے اہم کڑی بنی۔دراصل جموں وکشمیر کے آننت ناگ میں جیش محمد کے حمایت میں دھمکی بھرے پوسٹر لگاتے وقت ڈاکٹر عدیل ،مولانا عرفان کے ساتھ سی سی ٹی وی میں قید ہو گیا تھا ۔اسی فوٹیج کی بنیاد پر سری نگر پولیس نے پہلے مولانا کو حراست میں لیا اور پھر ڈاکٹر عادل تک پہنچی ۔دہلی این سی آر اور سہارنپور میں سرگرم دہشت گردوں کے ڈاکٹر گروہ کے خطرناک منصوبوں کا انکشاف حیران کرنے والا ہے ۔ظاہر ہے کہ اس حادثہ کا اثر دہلی تک محدود نہیں ہے بلکہ پورے دیش کے اتحاد اور امن کے لئے خطرہ ہے ۔قصورواروں کو سزا یقینی کرنے کی سمت میں جانچ ایجنسیاں سرکار تو اپنا کام کررہی ہیں لیکن لوگوں کو بھی چوکس رہنا ہوگا اور کسی بھی مشتبہ سرگرمی کی فوراً اطلاع دینے کے لئے الرٹ رہنا ہوگا ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

سیکس ،ویڈیو اور وصولی!

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘