بہار میں کانٹے کی ٹکر نظر آتی ہے!

بہار میں اسمبلی چناو¿ کی تیاریاں شروع ہو گئی ہیں ۔پارٹیوں کے درمیان سیٹوں کے تجزیہ جاری ہیں ۔اس درمیان الیکشن کمیشن نے ایس آئی آر یعنی انسینٹو رویژن لسٹ کا ڈرافٹ بھی جاری کر دیا ہے اس کے مطابق بہار میںاب 7.42 کروڑ ووٹر ہیں اب۔ اب چناو¿ کا اعلان ہو گیا ہے بہار میں 6 اور 11 نومبر کو اسمبلی چناو¿ ہوں گے ۔نتیجے 14 نومبر کو آئیں گے ۔بہار اسمبلی کی موجودہ میعاد 22 نومبر 2025 کو ختم ہور ہی ہے ایسے میں ریاست میں چناو¿ میعاد ختم ہونے سے پہلے تک کرائے جارہے ہیں ۔قارئین کی جانکاری کے لئے بہار میں اسمبلی کی 243 سیٹیں ہیں اور سرکار بنانے کے لئے کسی بھی پارٹی یا اتحاد کے پاس 122 سیٹیں ہونا ضروری ہے ۔بہارمیں فی الحال جے ڈی یو اور بھارتیہ جنتا پارٹی اتحادی این ڈی اے کی سرکار ہے اور آر جے ڈی کے تیجسوی یادو بہار اسمبلی میں اپوزیشن کے لیڈر ہیں ۔اسمبلی میں ابھی بی جے پی کے 80 ممبران ہیں اور آر جے ڈی کے 77 جے ڈی یو کے 45 اور کانگریس کے 19 کمیونسٹ پارٹی کے 11 ہندوستانی عوام مورچہ (سیکولر ) کے 4 کمیونسٹ پارٹی ماسک وادی کے دو کمیونسٹ پارٹی کے دو اویسی کی پارٹی کا ایک دو آزاد ممبر اسمبلی ہیں ۔سبھی پارٹیاں ووٹروں کو لبھانے کے لئے جم کر ریوڑیاں بانٹ رہی ہیں ۔کہیں تو بہار کی 75 لاکھ عورتوں کے کھاتے میں 10-10 ہزار روپے پہنچ رہے ہیں تو کہیں چناو¿ کے لئے کوڈ آف کنڈکٹ ہونے سے پہلے وزیراعلیٰ نتیش کمار کی طرف سے کروڑ روں روپے کے پروجیکٹوں کا اعلان کر دیا گیا ۔عورتوں کے کھاتے میں پیسہ دینے کے وعدے کے بعد اب پی ایم مودی نے لڑکوں کے لئے قریب 62 ہزار کروڑ روپے اسکیمیں شروع کی ہیں ۔ان میں بہار کے لئے بھی کافی اسکیمیں ہیں ۔ان اسکیموں سے لگتا ہے بہار چناو¿ حکمراں مرکز کی این ڈی اے سرکار کے لئے بہت اہم رکھتا ہے اور مرکزی قیادت کسی بھی صورت میں بہار کو کھونا نہیں چاہتی ۔ان اسکیموں سے لگتا ہے کہ پی ایم مودی اور وزیراعلیٰ نتیش کمار عورتوں اور نوجوانوں پر خاص توجہ دے کر چناو¿میں جیت کے امکانات بڑھانے کی کوششیں کررہے ہیں ۔دوسری جانب مہا گٹھ بندھن بھی ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہا ہے ایس آئی آر ،ووٹ چوری اور آئین کی حفاظت ان کے اہم اشو ہیں ۔این ڈی اے کی اندرونی کھینچ تان بھی جاری ہے ۔جو تشویش کا موضوع بنی ہوئی ہے ۔اس بار چناو¿ میں ایک نیا فیکٹر بھی جڑ گیا وہ ہے پی کے یعنی پرشانت کشور اور ان کی جن سوراج پارٹی کے حکمراں این ڈی اے سرکار کے وزیرہیں ۔پرشانت کشور اپنے ریلیوں میں زبردست بھیڑ اکٹھی کررہے ہیں ۔دیکھنا یہ ہے کہ یہاں کے لوگ کس پارٹی کو ووٹ ڈالتے ہیں این ڈی اے یا مہا گٹھ بندھن ؟ اگر پی کے 10-12 سیٹیں نکال لیتے ہیں تو وہ کنگ میکر کے رول میں آسکتے ہیں ۔بہار میں اس وقت لڑائی این ڈی اے بنام مہا گٹھ بندھن بنام جن سوراج پارٹی کے درمیان دکھائی پڑتی ہے ۔میں شخصی طور سے ان چناو¿ سے پہلے ہوئے سرووں پر یقین نہیں رکھتا لیکن جو ان پر یقین کرتے ہیں ان کی جانکاری کے لئے تازہ سروے کی تفصیل دے رہا ہوں ۔نتیش کمار ،تیجسوی یا پرشانت کشور ۔۔۔ بہار کا کون اگلا وزیراعلیٰ نام کے کسی سی ووٹر کا تازہ سروے آیا ہے ۔2025 میں اگلا وزیراعلیٰ کون ہوگا ؟ اس کو لے کر لوگوں میں کریز بڑھ گیا ہے ۔حالیہ سی ووٹر سروے نے دکھایا ہے کہ تیجسوی یادو ابھی بھی لوگوں کی سب سے زیادہ پسندیدہ وزیراعلیٰ کے دعویدار ہیں۔چونکانے والی بات یہ ہے کہ پرشانت کشور نے مقبولیت میں نتیش کمار کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دوسرا مقام حاصل کیا ہے ۔کون جیت رہا ہے یہ کہنا مشکل ہے لیکن کانٹے کی ٹکر ہے ۔این ڈی اے ،اندیا مہاگٹھ بندھن اور پرشانت کی بھی جن سوراج پارٹی کے درمیان تکونے مقابلے نے چناوی لڑائی کو دلچسپ بنا دیا ہے ۔سوال یہ بھی ہے کہ کیا نتیش کمار مسلسل تیسری بار ریگولر وزیراعلیٰ بن پائیں گے یا پھر این ڈی اے کی جیت ہوگی ۔تو کیا بی جے پی کسی وزیراعلیٰ کے عہدے پر کسی نئے چہرے کا اعلان کرے گی ۔وہیں اگر اپوزیشن کامیاب ہوتی ہے تو اس کا وزیراعلیٰ کون ہوگا ؟ کیوں کہ ابھی تک اس موضوع پر کانگریس نے کچھ کھل کر بات نہیں کی ہے ۔سی ووٹر کے مطابق بہار کے سابق نائب وزیراعلیٰ اور آر جے ڈی کے لیڈر تیجسوی یادو کو تقریباً 35 فیصدی لوگوں نے ہونے والا وزیراعلیٰ کی شکل میں اپنی رائے دی ہے ۔جبکہ نتیش کمار کو اس سروے میں تیسری پسند بتایا گیا ہے ۔انہیں صرف 16 فیصد لوگو ںنے چنا جبکہ دوسرے نمبر پر سیاستداں سے حکمت عملی بنے پرشانت کشور کی مقبولیت اس سروے میں سب سے پسندیدہ وزیراعلیٰ کی شکل میں ہے جو 23 فیصد تک پہنچ گئی ہے ۔جیسا کہ میں نے کہا مجھے ان جائزوں پر یقین نہیں ہے ان سے اتنا تو پتہ چلتا ہے کہ بہار میں کیسی سیاسی ہوا بہہ رہی ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

سیکس ،ویڈیو اور وصولی!

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘