نیچر سے چھیڑ چھاڑ کا نتیجہ !
سائنسداں بار بار خبردار کررہے تھے کہ نیچر سے اتنی چھیڑ چھاڑ نہ کرو لیکن انسان اس وارننگ کو نظر انداز کرتا چلا گیا ۔نتیجہ سامنے ہے آب و ہوا تبدیلی کے سبب موسم میں بھاری تبدیلی آئی ہے ۔نارتھ انڈیا میں ماہ ستمبر میں بھی سیلاب و بارش اور چٹانیں کھسکنے کا پہر تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔جموں وکشمیر ،ہماچل پردیش سے پنجاب اور دہلی تک کئی علاقے سیلاب سے بے حال ہیں ۔ہماچل میں چٹانیں کھسکنے کے الگ الگ واقعات میں کئی لوگوں کی موت ہوئی ہے اور متعدد زخمی اور کئی لوگ لاپتہ ہیں۔پنجاب کے سبھی 23 اضلاع میں 1200 سے زیادہ گاو¿ں سیلاب کی زد میں ہیں۔3.75 لاکھ ایکڑ زرعی زمین خاص کر دھان کے کھیت پانی میں زیر آب ہیں ۔فیروزپور زون میں 16 ٹرینیں منسوخ کر دی گئی ہیں ۔ہماچل میں رائے پور میں چلتی بس پر چٹان گرنے سے دو لوگوں کی موت ہو گئی ۔وہیں بلاسپور میں نو گھر ڈھہہ گئے۔متوفین کی تعداد 7 بتائی جاتی ہے ،کلو میں دو لگ ملبہ میں دب گئے ۔سات لوگ نیشنل ہائی وے سمیت 1155 سڑکیں اور 2477 بجلی ٹرانسفارمر اور 720 پینے کے پانی کے پلانٹ ٹھپ ہیں وہیں چھتیس گڑھ کے بلرام پور ضلع میں باندھ کا ایک حصہ ٹوٹنے سے آئے سیلاب میں چار لوگوں کی موت ہوئی جن میں دو عورتیں تھیں ۔شری ماتا ویشودیوی کے ٹریک پر بدھوار کو پھر چٹان گری لیکن یاترا بند رہنے سے بڑا حادثہ ٹل گیا ہے ۔جموں وکشمیر میں راجوری کے سندر بنی تحصیل میں مکان ڈہنے سے ماں بیٹی کی موت کی خبر تھی ۔پنجاب میں درجنوں جانور پانی میں بہہ گئے ۔پنجاب میں بارش کا قہر بدستور جاری ہے ۔ریاست میں اس وقت 1988 کے بعد جب سے قیامت خیز سیلاب سے لڑرہا ہے ۔اب تک 29 لوگوں کی جان جا چکی ہے اور 2.56 لاکھ لوگ متاثر ہیں جن میں گرداس پور ،پٹھان کوٹ ،فاضلکا ،کپور تھلا ،ترنتارن ،فیروزپور ،ہوشیار پور ،امرتسر شامل ہیں ۔پی ایم نریند رمودی نے وزیراعلیٰ بھگونت مان سے جانکاری لی ہے ۔پاکستان کے پنجاب میں سیلاب سے متاثر کرتارپور کوریڈور راستہ بھی شردھالوو¿ں کے لئے بند ہے ۔گردوارہ دربار صاحب میں فوج اور سول انتظامیہ بحالی کے کام میں لگے ہوئے ہیں ۔انتہائی دکھ کی بات ہے کہ اس وقت تقریباً ساری یاترائیں باڑھ کے سبب بند ہیں ۔کیدارناتھ دھام بند ،بدری ناتھ دھام بند ،ماتا ویشنو دیوی دھام بند ،رشی کیش کے گھاٹ بند ،بھیم ہیڑا یاترا بند ،کیلاش بند ،گھاٹی دیوی بند ،امرناتھ یاترا بند یہ سب یاترائیں ہیں جہاں جاکر شاستروں کے بھگوان کے درشن ہوتے ہیں ۔کچھ تو غلطی کررہے ہیں انسان کہ بھگوان بھی منہ موڑ رہے ہیں ۔ان جگہوں کو سیاحتی مقام نہ بنائیں صرف بھگتی کے لئے ہی بنائیں ،کچھ تو اشارے یہ ٹریجڈی ہم کو دے رہی ہے اور نیچر ہم کو اشارے دے رہی ہے ۔اگر اب بھی نہیں خبردار ہوئے تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ نیچر ایسا بدلہ لے گی کہ لوگ بھول نہیں سکیں گے ۔ٹیلر تو دیکھنے کو مل ہی رہا ہے ۔یہ بتانا بھی ضروری ہے اس وقت دیش میں کئی ندیاں طغیانی پر ہیں ۔اس کے سبب 21 جگہوں پر سیلاب کے حالات سنگین بنے ہوئے ہیں ۔33 جگہوں پر ندیوںکی آبی سطح عام سطح سے اوپر بہہ رہی ہیں ۔سی ڈبلیو سی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 21 سنسنی خیز سیلاب متاثرہ جگہوں میں سے 9 بہار ،8 اتر پردیش اور 1-1 دہلی ،جموں وکشمیر ،مغربی بنگال ،جھارکھنڈ میں ہیں ۔وہیں ویاس اور ستلج ،چناب ،راوی ،الک نندہ اور بھاگیرتھی ندیوں میں آبی سطح خطرناک سطح سے اوپر بڑھ رہی ہے ۔اس بار بارش صرف پہاڑی علاقوں تک محدود نہیں ہے اس بار میدانی ریاستوں میں بھی قہر ڈھا رہی ہے ۔اس کی وجہ صرف زیادہ بارش ہونا نہیں ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ کمزور بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر اور پانی نکاسی کے مناسب اقدام نہ ہونا بھی ہے یہی وجہ ہے کہ نئے پل بنے نئی بنیں سڑکیں بھی سیلاب کے سبب تاش کے پتوں کی طرح ڈہہ رہی ہیں ۔حالت یہ ہے کہ میٹرو شہروں تک کی سڑکوں یہاں تک کہ ایکسپریس وے اور ہائی وے تک میں پانی کے نکاسی کے مناسب انتظام ندارد ہیں ۔سیلاب کے بعد ڈینگو،ملیریا جیسی بیماریوں کے پھیلنے کا بھی خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔فی الحال بحران سے نمٹنے کے لئے جن فوری اقدامات کی ضرورت ہے ان پر تو سرکار دھیان دے گی ہی ۔حیرت تو اس بات کی ہے البتہ یہ کہ ہر سال بارش کے موسم میں ایسی صورتحال پیدا ہونے پر بھی ہم خود کو لاچار کھڑے پاتے ہیں ۔ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ نیچر کے ساتھ تال میل بنائے بغیر ہم ایسی قدرتی آفات کو بار بار جھیلنے کے لئے مجبور ہوں گے ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں