کیا نائب صدر جمہوریہ کے چناو نتائج چونکا سکتے ہیں؟
نائب صدر جمہوریہ کے عہدے کے چناو¿ کی تاریخ جیسے جیسے قریب آرہی ہے، اس عہدے کے لئے حکمراں این ڈی اے کے امیدوار سی پی رادھا کرشنن اور اپوزیشن کے امیدوار جسٹس سدرشن ریڈی نے چناو¿ کمپین تیز کر ردی ہے ۔2017 و 2022 نائب صدارتی چناو¿ کے وقت بھاجپا کو لوک سبھا میں اکثریت حاصل تھی اس وقت لوک سبھا میں وہ اکثریت سے دور ہے لیکن این ڈی اے کو سرکار چلانے کے لئے اکثریت حاصل ہے ۔دونوں ایوانوں کا حساب کو دیکھیں تو لوک سبھا میں 542 اور راجیہ سبھا میں 240 ایم پی ہیں کل نائب صدارتی چناو¿ میں تعداد 8 ہزار 221 ہے دونوں ایوانوں میں انڈیا اتحاد کے ایم پی کی تعداد 422 ہے اور اس کے مطابق سی پی رادھا کرشنن کا نائب صدر بننا بھلے ہی یقینی ہے اپوزیشن کو بھی پتہ ہے کہ لوک سبھا و راجیہ سبھا ممبروں کی تعداد طاقت کی بنیاد پر اس کے امیدوار کو جتانا ناممکن ہے امیدوروں کے پیچھے کی حکمت عملی ان کی اہلیت اور پیغامات کو سمجھنے کے پچھلے پش منظر کو دھیا ن میں رکھنا ضروری ہے ۔یہ ایک اہم ترین چناو¿ ہے ۔جن حالات میں جگدیپ دھنکھڑ نے استعفیٰ دیا ویسے پہلے کبھی نہیں ہوا چونکہ نائب صدر راجیہ سبھا کے چیئرمین بھی ہوتے ہیں اس لئے اس جگہ کو زیادہ وقت تک خالی نہیں چھوڑا جاسکتا ۔چندوپورم پچو سوامی ،رادھاکرشنن کبھی بھی تنازعات میں نہیں رہے او ر وہ کئی اہم ترین سرکاری عہدوں پر بھی رہے ہیں ۔اور آر ایس ایس کے قریبی مانے جاتے ہیں ۔مسلسل جنتا کے درمیان جانے کے باوجود کسی طرح کا سیاسی تنازعہ نہ ہونا ان کی شائستگی کا ثبوت ہے ۔دوسری جانب سدرشن ریڈی آندھرا پردیش اور گوہاٹی ہائی کورٹ میں جج اور اس کے بعد 2007 سے 2011 تک سپریم کورٹ کے جج رہ چکے ہیں اور ان کے موجودہ تلنگانہ کی کانگریس سرکار نے جب سماجی و اکنامک تعلیمی برادری سروے کروایا تو اس کی رپورٹ کے لئے سدرشن ریڈی کی سربراہی میں ہی ایک کمیٹی بنائی گئی تھی اس طرح کانگریس کے ساتھ ان کا رابطہ بنا ہوا تھا حالانکہ جب وہ گوا کے لوک آیکت تھے تب کانگریس نے ان کی مخالفت کی تھی ۔اس وقت ان کی تقرری بھاجپا حکومت کی طرف سے کی گئی تھی اور اس لئے کانگریس نے انہیں جانبدارانہ ماناتھا ۔چھتیس گڑھ میں ماو¿ وادی تشدد کے خلاف جنتا کے سرواجوڈم تحریک کو انہوں نے غیر آئینی قرار دہا تھا۔ایسا کہنا مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کا تھا ۔حالانکہ جسٹس ریڈی نے دو ٹوک جواب دیا یہ فیصلہ میرا نہیں تھا یہ فیصلہ سپریم کورٹ کا تھا ۔یہ ماننا پڑے گا کہ شر ی سدرشن ریڈیا جب چناوی مہم چلا رہے ہیں تو انہوں نے بہت سے ایم پی سے سیدھا رابطہ قائم کیا ہے ۔یہاں تک کہ کہا کہ مجھے بھاجپا ایم پی سے بھی حمایت کی اپیل کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ہے وہ کہتے ہیں لڑائی ایک عہدے کے لئے صرف نہیں یہ لڑائی آئین بچانے کی ہے ۔دیش میں جمہوریت بچانے کی ہے اور چونکہ وہ سپریم کورٹ کے جج رہے ہیں اس لئے وہ آئین کو سمجھتے ہیں اور قانون سمجھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں غیر سیاسی ہوں ۔اس لئے میں سبھی سے اپیل کرسکتا ہوں چناو¿ کمپین زوروں پر جاری ہے ۔نو ستمبر کو ہونے والے اس چناو¿ میں جہاں ایک طرف این ڈی اے نے تجربہ کار لیڈر اور سابق گورنر سی پی رادھا کرشنن کو امیدوار بنایا ہے ۔وہیں اپوزیشن نے بھی چونکانے والا داو¿ چلا ہے ۔انڈیا اتحاد نے سپریم کورٹ کے سابق جسٹس سدرشن ریڈی کو نائب صدر کے طور پر امیدوار بنا کر اس چناو¿ کو صرف اقتدار کی لڑائی نہیں بلکہ آئین بنام آئیڈیا لوجی کی لڑائی بنا دیا ہے ۔بھلے ہی لوک سبھا میں این ڈی اے کے پاس نمبروں کی طاقت زیادہ ہو لیکن اپوزیشن بھی اپنا مشترکہ امیدوار اتار کر چناو¿ کو دلچسپ بنانے میں کوئی کسر نہیںچھوڑ رہاہے۔جسٹس سدرشن ریڈی نے سی پی ایم لیڈروں سے ملاقات کی اور حمایت مانگی چونکہ وہ بنیادی طور پر آندھرا سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے این ڈی اے کو ڈر ہے کہ کہیں چندربابو نائیڈو چپ چاپ طریقہ سے ان کی حمایت نہ کردیں ۔بتادیں نائب صدارتی چناو¿ میں پوشیدہ پولنگ ہوتی ہے اس سے پتہ نہیں چلتا کس نے کس کو ووٹ دیا ہے چونکہ وہ تیلگو زبان بھی والے خطہ سے ہیں اس لئے تیلگو پرائیڈ بھی اشو بن سکتا ہے ۔اور اگر یہ بنا تو کرا س ووٹنگ ممکن ہوسکتی ہے ۔ادھر شوشل میڈیا میں بھی یہ خبر چل رہی ہے کہ کانگریس کے چانکیہ مانے جانے والے کرناٹک کے نائب وزیراعلیٰ ڈی کے شیو کمار بھی حرکت میں آگئے ہیں اور تمام جنوبی بھارت کے ایم پیز سے حمایت مانگ رہے ہیں ۔اور ریڈی کی حمایت کے لئے دوڑ دھوپ کررہے ہیں ۔جسٹس سدرشن ریڈی نے کہا کہ انہیں خوشی ہے کہ نہ صرف انڈیا اتحاد بلکہ اس سے باہر کے لوگ بھی ان کی حمایت کرنے کے لئے آگے آرہے ہیں کل ملا کر نمبروں کے حساب سے تو اپوزیشن کی جیت بھلے ہی مشکل ہو لیکن وہ اسے ایک سیاسی اسٹیج کی شکل میں استعمال کررہے ہیں تاکہ 2028 کے لوک سبھا چناو¿ اور اگلے دو برسوں میں کچھ ریاستوں میں اسمبلی چناو¿ کے لئے ایک مضبوط بنیاد رکھی جاسکے ۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا اس چناو¿ میں کوئی چونکانے والے نتیجے آسکتے ہیں ؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں