ٹیرف نے چھینی ہیرے کی چمک!
بھارت پر فاضل25 فیصدی امریکی ٹیرف لاگو ہو گیا ہے اسی کے ساتھ ہندوستانی چیزوں پر کل ملا کر 50 فیصدی ہو گیا ہے مانا جارہا ہے کہ 18 ارب ڈالر سے زیادہ کا امریکہ کو کئے جانے والے ہندوستانی ایکسپورٹ سامان زیادہ متاثر ہوگا ۔بھارت کے کپڑے ، دیگر لباس ،ہیرے ،زیورات اور جھینگا ،چمڑا وغیرہ بہت سی صنعتوں پر سیدھا اثر پڑے گا میں نے کچھ دن پہلے ہی ہریانہ کی صنعتوں پر پڑنے والے برے اثرات کا تذکرہ کیا تھا ۔آج میں گجرات کے شہر سورت میں ہیرا انڈسٹری کے بارے میں بتانے کی کوشش کروں گا ۔سورت دنیا میں ہیروں کی کٹنگ اور پالش کے لئے ماناجاتا ہے و جانا جاتا ہے ۔لیکن اب اس صنعت پر منحصر رہنے والے لوگ مشکل میں ہیں ۔30 فیصدی ٹیرف نے اس سیکٹر کے تاجروں کے ساتھ ساتھ مزدوروں کو بھی پریشانی میں ڈال دیا ہے ۔ہیرا صنعت سے جڑے پچیس لاکھ سے زیادہ کام گار اس سے متاثر ہوسکتے ہیں ۔پچاس فیصدی ٹیرف لگانے کا اثر سب سے زیادہ اس سیکٹر پر پڑ رہا ہے کیوں کہ سورت کی ہیرا انڈسٹری امریکہ کے لئے جانے والے سامان پر زیادہ منحصر ہے ۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر ٹیرف کم نہیں کیا گیا تو کئی تاجر ہیرا صنعت سے باہر ہو جائیں گے ۔کئی لوگوں کی نوکریاں چلی جائیں گی اور زبردست مندی آجائے گی ۔حالانکہ دوسری جانب ہیرا صنعت سے جڑی انجمن جیسے سورت ڈائمنڈ ایسو سی ایشن اور ساو¿تھ گجرات چیمبر آف کامرس کا ماننا ہے کہ امریکی ٹیرف سے کچھ مندی آئے گی لیکن وقت کے ساتھ حالات ٹھیک ہو جائیں گے کیوں کہ بھارت کو ہیرا صنعت کی جتنی ضرورت ہے امریکہ میں بھی ہیروں کی اتنی ہی مانگ ہے ۔اس لئے وہاں کے لوگ ،تاجر بھی اس مسئلے کا کچھ حل چاہتے ہیں ۔سورت کی کئی چھوٹی فیکٹریوں میں بیس سے دو سو ملازم کام کرتے ہیں بہت سوں کی تو یہ تعداد پانچ سو تک ہوتی ہے ۔اور سورت میں ایسی ہزاروں فیکٹریاں ہیں ۔حال ہی میں کئی لوگوں کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے اور چھوٹی بڑی فیکٹریوں کا یہ حال ہے کہ بیس سال پہلے سلیش مونگیا نے صرف ایک پالش وہیل (چکی) سے ہیرا پالش کرنے کا ایک کارخانہ شروع کیا تھا جو اب اتنا بڑا ہو گیا ہے کہ یہاں ورکروں کی تعداد تین سے بڑھ کر 300 ہو گئی ہے حالانکہ اب اس فیکٹری میں صرف 70 لوگ ہی بچے ہیں وہ کہتے ہیں سارے آرڈر کینسل ہو گئے ہیں ۔مزدوروں کو کہنا پڑ رہا ہے کہ کام نہیں ہے ۔آرڈر نہ ہونے کی وجہ سے کام نہیں مل رہا ہے اور کام نہ ہونے کی وجہ سے تنخواہ دینے کے لئے پیسے نہیں ہیں ۔پچھلے سال اگست میں ،ان کی فیکٹری میں ہر مہینے اوسطاً دو ہزار ہیروں کی پروسیسنگ ہو رہی تھی لیکن اس سال گھٹ کر مقدار 300 تک رہ گئی ہے مزدور سریش راٹھو ر کہتے ہیں کہ عام طور پر ہمیں جنم اشٹمی کے دوران صرف دودن کی چٹھی ملا کرتی تھی اس بار ہمیں دس دن کی بغیر تنخواہ کے چٹھی دی گئی ہے ۔ہم ایسے کیسے رہ سکتے ہیں ؟ سریش راٹھو ر جیسے کئی اور کاریگر ہیں جو اس طرح متاثر ہو رہے ہیں ۔سورت ڈائمنڈ پالشرس یونین کے مہاویش ٹاک کہتے ہیں کہ ہمارے پاس اس وقت بہت سے جوہری شکایت لے کر آرہے ہیں کہ ان کی تنخواہ کم کر دی گئی ہے ۔انہیں نوکری سے بھی نکال دیا گیاہے ہزاروں مزدوروں کی آمدنی کم ہو رہی ہے ۔صنعتی دنیا کے لیڈروں نے ایک اسپیشل ڈائمنڈ ٹاسک فورس بنائی ہے جو اس صورتحال کا حل نکالنے کی کوشش کرے گی ۔ساو¿تھ گجرات چیمبرس آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے چیئرمین نکھل مدراسی نے اس بارے میں بی بی سی سے بات میں کہا کہ امریکی بازار پر بھاری انحصار کی وجہ لمبے عرصے میں بڑا جھٹکا لگے گا پرانے آرڈر پورے ہو چکے ہیں لیکن نئے آرڈر کا مستقبل غیر واضح ہے ۔سرکار کو فوراً مدد کرنی ہوگی اور کئی تاجر مشرقی وسطیٰ اور یوروپ جیسے بازاروںمیں مواقع تلاش رہے ہیں اور کچھ تو بائی پاس راستوں کے ذریعے امریکہ تک مال بھیجنے کی کوشش کررہے ہیں حالانکہ ان کے مطابق اب الگ الگ یوروپی ممالک میں نئے بازروں کی تلاش کی ضرورت ہے ۔سوال یہ ہے کہ سورت کے ہیرا صنعت کو کیسے بچایاجاسکتا ہے ؟ اس صنعتی دنیا کے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں حالت اور بھی خراب ہو سکتی ہے ۔جیم اینڈ جیولری ایکسپورٹ پرموشن کونسل کے گجرات چیئرمین جیوتی بھائی ساولیہ کا خیال ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ پر انحصار کم کیا جائے اور دیگر بازاروں کی طرف دیکھا جائے ۔انہوں نے کہا کہ آرڈر نہیں ملے تو یقینی طور سے مزدروں کی تنخواہ اور روزگار پر اثر پڑے گا ۔اصلی مار آنے والے مہینوں میں نظر آئے گی وہ آگے کہتے ہیں کہ حال میں امریکہ کو ہونے والا کل ایکسپورٹ تقریباً بارہ ارب ڈالر کا ہے اگر ہم اس کی بنیاد پر بھی دیگر ملکوں سے بڑھا سکیں تو سورت کی ہیرا انڈسٹری بچ سکتی ہے اس صورت میں بھارت کے ہیرے کی چمک ٹیرف سے پڑنے والے اثر کو کم کردے گی ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں