ووٹ چوری الزام پر چناو کمیشن کا جواب !
بھارت میں چناوی عمل پر عوام کا بھروسہ ڈگمگا رہا ہے تو اس کے پیچھے کیا سیاست ہے ۔7 اگست کو لوک سبھا میں اپوزیشن کے لیڈر اور کانگریس نیتا راہل گاندھی کی پریس کانفرنس کے بعد بہت سے لوگوں کے دل میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کہیں ہمارے ووٹ تو نہیں کٹے ؟ راہل گاندھی نے پریس کانفرنس میں ووٹ چوری کا الزام لگاتے ہوئے چناو¿ کمیشن پر حکمراں بی جے پی کے ساتھ ملی بھگت کی بات کہی تھی ۔جسے چناو¿ کمیشن نے سرے سے مسترد کر دیا ہے ۔راہل گاندھی ،تیجسوی یادو اور انڈیا اتحاد کے ساتھی اسے بہار میں زور وشور سے اٹھا رہے ہیں اور اسے بھاری حمایت بھی ملتی نظر آرہی ہے ۔وہیں بھارتیہ جنتاپارٹی اسے کانگریس سمیت اپوزیشن کی مایوسی والی سیاست کہہ رہے ہیں ۔خیال رہے کہ جس دن بہار کے ساسا رام میں وووٹ ریکارڈ یاترا شروع ہوئی تھی اسی دن چناو¿ کمیشن نے بھی پریس کانفرنس کی تھی لیکن اس کے بعد بھی چناو¿ کمیشن پر تنقیدیں جاری ہیں ۔سوال ہے کہ کیا مرکزی حکومت ان الزامات کے بعد کسی طرح بیک فٹ پر دکھائی پڑتی ہے ؟ چناو¿ کمیشن اگر بچاو¿کرے تو کیا اسے ہر بار جانبدارانہ طور پر ہی دیکھا جائے گا ۔؟ اور چناو¿ کمیشن آخر راہل گاندھی سے حلف نامہ لینے کی مانگ پر کیوں اڑا ہوا ہے ؟ جبکہ راہل اندھی دعویٰ کررہے ہیں جو دستاویز انہوں نے سات اگست کو پیش کئے تھے وہ سب چناو¿ کمیشن کے ہی دیے ہوئے اعداد شمار ہیں؟ ان سوالوں پر بحث کے لئے انڈین ایکسپریس کی نیشنل بیورو چیف ریتیکا چوپڑا اور بھارت کے سابق چناو¿ کمشنر اشوک لباسا بی بی سی کے ہفتہ واری پروگرام دی لینس میں شامل ہوئے ۔اسی سال جون کے مہینے سے راہل گاندھی نے اخباروں میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں انہوں نے چناو¿ کمیشن پر نکتہ چینی کرتے ہوئے مہاراشٹر اسمبلی چناو¿ میں میچ فکسنگ کی بات کہی تھی۔بہار میں ایس آئی آر بڑا اشوبنتا جارہا ہے ۔ایس آئی آر پر اشوک لباسا لکھتے ہیں کہ سب سے پہلے اشتعال کے سبب بہار اسمبلی چناو¿ سے پہلے ایس آئی آر جیسی بڑی کاروائی کو اپنانے سے لوگوں میں غلط فہمی پھیلی ہوئی ہے ۔دوسری وجہ ہے کہ 2003 کی نظر ثانی میں پریزینٹیشن آف سٹیژن شپ لفظ کا استعمال نہیں کیا گیا ہے ۔ساسارام میں راہل گاندھی نے الزام لگایا کہ بہارمیں ا یس آئی آر کرکے ووٹروں کو جوڑ کر اور اہل لوگوں کے نام کاٹ کر بی جے پی آر ایس ایس بہار کا چنا و¿ چوری کرنا چاہتی ہے جبکہ چناو¿ کمیشن کی دلیل ہے کہ ووٹر لسٹ میں گڑ بڑیوں کو دور کرنے کے لئے ایس آئی آر کاروائی اپنائی جاتی ہے اشوک لواسا کا کہنا ہے کہ اس بار کاروائی پیچیدہ بنا دی گئی ہے ۔اورا س کے لئے لوگوں کو درکار وقت نہیں دیا گیا اس بار سوال ووٹر لسٹ پر اٹھائے جارہے ہیں اور پچھلے دس برسوں میں ایسے سوال نہیں اٹھائے گئے تھے ۔گزشتہ چناو¿ میں سیاسی پارٹی ای وی ایم ،چناوی ماڈیول یا ماڈل آف کوڈ آف کنڈکٹ سے متعلق شکایتیں کرتے ہیں سوال ابھی بھی چناو¿ کمیشن پر ہے لیکن اشو ووٹر لسٹ کا ہے ۔اس لئے یہ باقی معاملوں سے الگ ہے ۔راہل گاندھی بار بار کہہ رہے ہیں کہ چناو¿ کمیشن صرف ان سے حلف نامہ مانگ رہا ہے جبکہ کسی اور سے نہیں مانگا ۔اشوک لواسا کا کہنا ہے کہ اگر اتنے برے پیمانہ پر ایک اسمبلی حلقہ میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کے بارے میںدعویٰ کیا گیا ہے تو کسی بھی سرکاری دفتر کو اس کی جانچ کرنی چاہیے ۔میرے خیال سے اس کے لئے کسی حلف نامہ کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے معاملے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے سیاسی پارٹیوں سے پوچھا کہ جب اتنی مشکلات ہیں تو صرف الیکشن کمیشن کے پاس دو شکایتیں ہی کیوں نہیں آئی ہیں ۔حالانکہ تیجسوی یادو نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی شکایتوں کو منظور نہیں کیا گیا ہے ۔یہ بھی سچ ہے کہ الیکشن کمشنر گیانیش کمارکے بولنے کے طریقہ کے سبب لوگوں کے دل میں شکایتیں پوری طرح سے ختم نہیں ہو پائی ہیں ۔اشوک لواسا نے آگے کہا کہ چناو¿ کمیشن کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر کوئی غلط فہمی پھیلائی جارہی ہے تو اسے چناو¿ کمیشن کو ہی دور کرنا ہوگا ۔چناو¿ کمیشن کو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنا چاہیے ۔صحیح اور غلط کا فیصلہ لوگ خود کریں گے ۔بہار اسمبلی چناو¿ میں بہت کم وقت بچا ہے وقت صرف تین مہینے کا ہے اور چناو¿ کمیشن کو دستاویز جمع کرنے کے ساتھ ان کی توثیق بھی کرنی ہے ووٹروں کے پاس طے دستاویز نہیں ہیں اور کچھ لوگوں میں خوف کا ماحول ہے انہیں سب پریشانیوں کی وجہ سے اس مسئلے کی پکڑ بنیاد پر بڑھتی جارہی ہے ۔کئی لوگ اسے اپنی شہریت کے ساتھ بھی جوڑ رہے ہیں ۔حالانکہ چناو¿ کمیشن نے صاف کیا ہے کہ ایس آئی آر کا شہریت سے کوئی لینادینا نہیں ہے ۔لیکن بہار کے ووٹرو ں میں خدشہ ابھی بھی بناہوا ہے اشوک لباسا بتاتے ہیں کہ پریزمشن آف سٹیشن شپ کے استعمال سے شہریت پر سوال بنا ہوا ہے ۔چناو¿ کمیشن بار بار کہہ رہا ہے کہ ووٹر لسٹ میں نام نہ آنے سے شہریت ختم نہیں ہوگی ۔لیکن اس سے بھی تضاد یہ ہے کہ اسی وجہ سے تو آپ اسے ووٹر لسٹ سے باہر نکال رہے ہیں؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں