گورنر بل میں دیری کرے تو راستہ کیا ہے؟

سپریم کورٹ نے کہا کہ اگر گورنر غیر میعادی مدت تک بلوں کو پنڈنگ رکھتے ہیں تو اس سے ودھان منڈل بے اثر ہو جائے گا ۔ایسی صورت میں کیا عدالتیں مداخلت کرنے میں لاچار ہیں ؟ دراصل مئی 2025 میں صدر جمہوریہ دروپدی مرمونے آئین کے آرٹیکل 143 ( 1) کے تحت سپریم کورٹ نے یہ رائے مانگی تھی کہ کیا گورنر کے احکامات کے ذریعے صدر گورنر کو میعاد وقت میں باندھ سکتا ہے ؟ چیف جسٹس آر گوائی ،جسٹس سوریہ کانت ،جسٹس ورکرما ناتھ ،جسٹس پی ایس نرسمہا اور جسٹس ایس چنڈورکر کی ڈویژن بنچ اسی صدارتی ریفرنس پر سماعت کررہی ہے۔ سماعت کے دوران جمعہ کو بھارت سرکار کے وکیل نے دلیل دی کہ عدلیہ صدر جمہوریہ یا گورنر کو پابندی کرنے کی ہدایت نہیں دے سکتی تب چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ہم یہ کہیں کہ چاہے آئینی عہدے دار کتنے بھی اونچے ہوں ،اگر وہ کام نہیں کرتے تو عدالتیں لاچار ہیں ؟ دستخط کرنا ہے یا نا منظور کرنا ہے اس وجہ پر ہم نہیں جارہے کہ انہوں نے کیوں کیا لیکن اگر نوڈل ایجنسی منڈل نے کوئی ایکٹ پاس کر دیا ہے اور بصد احترام گورنر بس اسی پر بیٹھے ہیں تو یہ سالیشیٹر جنرل نے کہا کہ ہرمسئلے کا حل کورٹ میں نہیں تلاش کیاجاسکتا ۔عدالت نے کہا کہ اگر کچھ گورنر اسمبلی کے ذریعے پاس بلوں کو لے کر بیٹھے ہوئے ہیں اور ان پر فیصلہ نہیں لے رہے ہیں تو ایسے میں گورنروں عدلیہ حل کے بجائے سیاسی حل تلاشنے ہوں گے ۔سپریم کورٹ نے سوال کیا کہ اگر گورنر بلوں میں تاخیر کرتے ہیں تو راستہ کیا ہے ؟ تبھی سرکاری وکیل تشار مہتا نے کہا کہ یہ ایک عام جواب یہ ہے کہ اگر کوئی گورنر بلوں کو لٹکائے رہتے ہیں تو سیاسی حل نکلتے ہیں اور ایسے حل بھی نکل رہے ہیں ۔ہر جگہ ایس نہیں ہوتا کہ ریاست کو سپریم کورٹ جانے کی صلاح دی جائے ۔وزیراعلیٰ جاتے ہیں اور وزیراعظم سے درخواست کرتے ہیں کہ وزیراعلیٰ صدر سے ملتے ہیں ۔نمائندہ وفد جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کسی شکل میں فیصلہ لیں ۔کئی بار ٹیلی فون پر ہی معاملوں کو نپٹا لیا جاتا ہے ۔وزیراعلیٰ ،وزیراعظم اور گورنر کی مشترکہ ملاقاتیں ہوتی ہیں اور اس طرح تعطل دور ہوتا ہے لیکن اس میں دائرہ اختیار یعنی نیورکس یورڈ رکشن نہیں مل پاتی کہ جوڈیشیل فیصلے کے ذریعے وقت میعاد طے کر دیں ۔سوال یہ ہے کہ جب آئین میں وقت اور میعاد طے نہیں ہے تو کیا عدالت وقت حد طے کر سکتی ہے ؟ بھلے ہی اس کے لئے جواز ہو ؟ ایسے مسئلے کئی دہائیوں سے ہر ریاست میں اٹھتے رہے ہیں لیکن جب سیاسی اسٹیٹ منشپ اور سیاسی پختگی دکھائی جاتی ہے تو وہ مرکز کے آئینی صلاح کاروں سے ملتے ہیں اور تبادلہ خیال کرتے ہیں اور سیاسی حل نکال لیتے ہیں یہ ان مسئلوں کے حل ہیں جسٹس سوریہ کانت نے پوچھا کہ اگر گورنر کی ٹال مٹولی کے خلاف کوئی متاثرہ ریاست عدالت کے پاس آتی ہے تو کیا آپ کے مطابق عدلیہ جائزہ پوری طرح بے جواز ہے ؟ اس پر تشار مہتا نے کہ کہ وہ گورنر کی کاروائی کی عدالتی کاروائی کے سوال پر نہیں ہے بلکہ اس سوال پر ہیں کہ کیا عدالت گورنر کو وقت حد کے اندر کام کرنے کی ہدایت دے سکتی ہے ۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی غلط ہے تو قدم اٹھانا ہی چاہیے مہتا نے جواب دیا کہ دیش کے ہر مسئلے کا حل کسی اسٹیج سپریم کورٹ )سے نہیں ہوسکتا ۔اس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اگر کوئی آئینی عہدے دار بغیر کسی وجہ اپنی فرض نہیں نبھاتا تو کیا عدلیہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔جسٹس سوریہ کانت نے اس دوران جوڑا کہ اگر سسٹم کے پاور سپریم کورٹ میں ہیں تو قانون کی تشریح عدالتوں کو ہی کرنی ہوگی ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

سیکس ،ویڈیو اور وصولی!

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘