صرف کسی سرکار کی تنقید پر کیس نہیں ہوسکتا !

سپریم کورٹ کا یہ ریمارکس صحافت کررہے لوگون کے لئے سکون دہ ہوسکتے ہیں کہ سرکار کی تنقید کرنا صحافیوں کا حق ہے ۔سپریم کورٹ نے جمعہ کو کہا کہ صحافیوں کے حقوق کو دیش کے آئیں 19(1) کے تحت تشریح کی گئی ہے ۔ایک صحافی کی تحریر کو سرکار کی تنقید کی شکل میں مان کر اس کے خلاف مجرمانہ کیس درج نہیں کئے جانے چاہیے ۔یہ ریمارکس دیتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے اتر پردیش کے صحافی ابھیشیک اپادھیائے کو گرفتاری سے انترم راحت دی ہے ۔ساتھ ہی ہدایت دی ہے کہ ریاستی انتظامیہ ان کے تحریروں کے سلسلے میں کوئی سزا لائق کاروائی نہیں کرے گا ۔جسٹس رائے اور جسٹس این بی این بھٹی کی بنچ نے صحافی ابھیشیک اپادھیائے کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے یہ حکم صادر کیا ۔عرضی میں اپادھیائے نے اترپردیش پولیس کے ذریعے ان کے خلاف ایف آئی آر کو مسنوخ کرنے کی درخواست کی ہے ۔بنچ نے عرضی پر اترپردیش سرکار کو نوٹس جار ی کیا ۔اس معاملے کی اگلی سماعت 5 نومبر کو ہونی ہے ۔اپنے مختصر حکم نے بنچ نے صحافت کی آزادی کی سمت میں کچھ دلائل آمیز تبصرے کئے بنچ نے کہا جمہوری ملکوں میں اپنے نظریات رکھنے کی آزادی کا احترام کیا جاتا ہے ۔صحافیوں کے حقوق کو بھارت کے آئیں کی آرٹیکل 19(1 ) کے تحت تشریح کی جاتی ہے ۔صرف اس لئے کہ ایک صحافی کی تحریر سے سرکار کی نکتہ چینی کی شکل میں محض ایک بے دلیل ہے ۔مصنف کے خلاف مجرمانہ معاملہ نہیں لگایا جانا چاہیے ۔دراصل سرکاروں کو اپنی تنقید پسند نہیں ہے ۔اگر پچھلے کچھ برسوں میں سرکاریں اسے لے کر کئی طرح سے سخت نظر آنے لگی ہیں ۔سرکار کے خلاف اخباروں میں خبریں ،آرٹیکل یا کوئی آئیڈیا لوجی تبصرہ کرنے پر کوئی صحافیوں کو ٹارچر کرنے کے واقعات سامنے آئے ہیں ۔یہاں تک کہ کچھ صحافیوں پر غیر قانونی سرگرمی اژالہ ایکٹ کے تحت بھی مقدمہ درج کئے گئے ۔جس میں ضمانت ملنا مشکل ہوتی ہے ۔اس دفعہ کے تحت کئی صحافی اب بھی سلاخوں کے پیچھے ہیں ۔کچھ معاملوں میں پہلے ہی سپریم کورٹ کہہ چکی ہے کہ سرکار کی تنقید ملک کی بغاوت نہیں مانا جاسکتا ۔مگر کسی سرکار نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا ۔کسی دیش کی صحافت کتنی آزاد ہے اور کتنے ہمت کے ساتھ اپنے اقتدار اعلیٰ کی تنقید کر پارہی ہے اس سے اس دیش کی خوشحالی کا بھی پتہ چلتا ہے ۔یہ بے وجہ نہیں ہے کہ پچھلے کچھ برسوں میں عالمی خوشحالی انڈیکس میںبھارت مسلسل نیچے کھسکتا گیا ہے ۔سوال یہ بھی ہے کہ سرکار عزت مآب سپریم کورٹ کی نصیحت کو کتنی سنجیدگی سے لیتی ہے اور آزاد صحافت کرنے کی اجازت دیتی ہے ؟ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!