فصل بوئی کانگریس نے کاٹی بھاجپا نے !

ہریانہ ریاست کے چناوی تاریخ میں ا یسا پہلی بار ہواہے کہ کسی پارٹی نے مسلسل تیسری مرتبہ اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہو ۔چناو¿ میں کانگریس پارٹی اپنی جیت کے زوروشور سے دعوے کررہی تھی ۔تمام ایگزٹ پولس سرووں میں ، تجزیہ نگار کانگریس کی زبردست جیت کی قیاس آرائیاں کررہے تھے ۔جان کر بھی پچھلے دس سال میں بی جے پی کی سرکار کو لے کر اقتدار مخالف لہر کا دعویٰ کررہے تھے ۔ایگزٹ پول میں کانگریس کو نا صرف کامیاب دکھایا گیا بلکہ 90 میں سے 60 سیٹیں ملنے تک کا دعویٰ کررہے تھے ۔کہا گیا تھا کہ ہریانہ میں کسانوں کا مدعا ہو یا پہلوانوں کا ہو ۔اگنی ویر جیسا اشو ہو ان کی وجہ سے بی جے پی سرکار کے تئیں ناراضگی ہے ۔ہریانہ میں دس سال بعد اپنی سرکار بنانے کا سپنا پالتی رہی کے ہاتھوں سے کراری شکست ہاتھ لگی ۔وجہ کئی رہی ہیں ان نتیجوں کے پیچھے سب سے بڑی وجہ رہی ہے کہ بی جے پی کا مائیکرو منجمنٹ جسے آپ بھی سمجھتے ہیں کہ ہریانہ میں بی جے پی کو غیر جاٹ ووٹوں کو چالاکی سے شیشے میںاتارا اس کا اثر ہوا ۔ہڈا کے گڑھ سونی پت میں 5 میں سے 4 سیٹوں پر کانگریس ہار گئی ۔ہریانہ کے ایک سینئر صحافی کے مطابق ہریانہ میں قریب 22 فیصدی ووٹ ہیںجو کافی طاقت رکھتے ہیں ۔اور کھل کر اپنی بات رکھتے ہیں ۔غیر جاٹوں کو لگا کہ کانگریس کے جیتنے پر بھوپندر سنگھ ہڈا ہی ہریانہ کے وزیراعلیٰ ہوں گے اس لئے انہوں نے خاموشی سے بی جے پی کے حق میں ووٹ دے دیا ۔اس مرتبہ کے اسمبلی چناو¿ میں ووٹوں کا بٹوارہ جاٹ اور غیر جاٹ کی بنیاد پر ہو گیا ،جس کا سیدھا نقصان کانگریس کو پہنچا ۔ہریانہ میں کانگریس کی ہار کے پیچھے ایک بڑی وجہ تھی پارٹی کے اندر گروپ بندی ۔واقف کار مانتے ہیں کہ ریاست میں کانگریس امیدواروں کو اس طرح سے بھی دیکھا جارہا تھا کہ کون ہڈا خیمے میں اور کون شیلجا خیمے میں ہے ۔یہ ہی نہیں کانگریس کے کئی امیدواروں کو اعلیٰ کمان یعنی کانگریس کی لیڈرشپ کے کہنے سے میدان میں اتارا گیا جن کا ہریانہ میں کوئی مینڈیٹ نہیں تھا ۔ان میں سے خاص طور سے نام لیا جارہا ہے کانگریس تنظیم منتری کیسی وینیو گوپال کا وینو گوپال سے سنا ہے پانچ نام دئیے تھے سبھی پانچ ہار گئے ۔ہڈا اور شیلجا کی آپسی کھینچ تان سے بھی پارٹی کو نقصان ہوا ہے ۔شیلجا کا گھر بیٹھنا اور یہ کہنا پارٹی میں ان کی بے عزتی ہوئی ہے نے دلت ووٹوں کو کھسکا دیا اور اس کا فائدہ بی جے پی کو ہو گیا ۔ہریانہ میں گروپ بندی اور غلط طریقہ سے ٹکٹ بٹنے کی وجہ سے کانگریس تقریبا 13 سیٹیں گنوا بیٹھی ۔اس میں اعلیٰ کمان ،ہڈ اور شیلجا تینوں کے چنے ہوئے امیدوار تھے ۔کانگریس کے کئی لیڈروں کا دھیان چناو¿ سے زیادہ چناو¿ جیتنے کے پہلے ہی وزیراعلیٰ کی کرسی پر تھا ۔عام آدمی پارٹی کے کنوینر اروند کیجریوال نے کہا کہ ان چناو¿ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ خود اعتمادی کا دعویٰ کبھی نہیں کرنا چاہیے ۔دوسری طرف بی جے پی کے 25 سیٹوں پر اپنے امیدوار بدل دئیے گئے تھے ان میں 16 امیدواروں نے جیت حاصل کر لی کانگریس نے اپنے کسی ممبر اسمبلی کا ٹکٹ نہٰں کاٹا اور اس کے آدھے امیدواروں کی ہار ہو گئی ۔امیدواروں کو نہیں بدلنا بھی کانگریس کے لئے بڑا نقصان ثابت ہوا ۔ہریانہ اسمبلی چناو¿ کے نتیجوں سے یہ بات سامنے آئے ہے کہ دس سے زیادہ سیٹوں پر چھوٹے اور آزاد امیدوار کانگریس کی ہار کیلئے بڑی وجہ رہے ہیں ۔بھاجپا نے ان سبھی سیٹوں پر کانگریس مخالف امیدواروں کی مدد کی خاص کر ان جگہوں پر جہاں اس کی جیت کے امکان کم تھے ۔کانگریس کی جیت بھی صاف نہیں نظر آرہی تھی ۔کانگریس تنظیم نے ایک بار پھر کمی دکھائی دی ہے ۔وہ امڑتی بھیڑ کو ووٹوں میں نہیں بدل سکی اور زیادہ جوش میں جیتی بازی ہار گئی ۔اس لئے کہتا ہوں کہ فصل بوئی کانگریس نے اور کاٹی بھاجپا نے ،۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!