کیا آئی ایس خراسان نے روس پر حملہ کیا؟

روسی صدر ولادی میر پیوتن اور اس کے زیر اثر میڈیا مسلسل کہہ رہا ہے کہ جمعہ کو ماسکو کے تھیٹر پر حملے کی ذمہ داری یوکرین پر ڈالی جا سکتے۔ لیکن اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس خراسان) نے قبول کر لی ہے۔ حملہ آوروں نے نہ صرف کروکس ہال میں موجود لوگوں پر بندوقوں سے فائرنگ کی بلکہ عمارت کو بھی آگ لگا دی۔ روس کی تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے جاری کی گئی ویڈیو میں نہ صرف کنسرٹ ہال کی چھت گرتی دکھائی دے رہی ہے بلکہ شہتیر کو بھی گرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس حملے میں 137 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔ انگریزی میں اس شدت پسند تنظیم کو IS کہا جاتا ہے جو کہ نام نہاد اسلامک اسٹیٹ کی مختصر شکل ہے۔ یہ تنظیم دراصل بین الاقوامی طور پر اعلان کردہ دہشت گرد گروپ نام نہاد اسلامک اسٹیٹ کا حصہ ہے۔ اس کا پورا بیان افغانستان، ایران اور پاکستان پر مرکوز ہے۔ اس تنظیم نے اپنا نام گڈ گورننس رکھا ہے کیونکہ جن ممالک میں یہ سرگرم ہے وہاں کا علاقہ اسلامی خلافت کی تاریخ میں اسی نام سے جانا جاتا تھا۔ نام نہاد دولتِ اسلامیہ پچھلے نو سالوں سے خطے میں سرگرم ہے، لیکن حالیہ مہینوں میں یہ پیرنٹ اسلامک اسٹیٹ کی سب سے خطرناک شاخ کے طور پر ابھری ہے، جو اپنی بے رحمی اور کاروبار کی کمی کے لیے مشہور ہے۔ یہ شدت پسند تنظیم شام اور عراق میں موجود اپنی مرکزی قیادت کے ساتھ مل کر اسلامی دنیا میں ایک نام نہاد خلافت کا نظام لانا چاہتی ہے جہاں وہ اپنی مرضی کے مطابق سخت قوانین نافذ کر سکے۔ یہ تنظیم افغانستان میں حکمران گروپ طالبان کے خلاف بھی جنگ لڑ رہی ہے۔ اس سال اس نے کابل میں روسی سفارت خانے کو بھی نشانہ بنایا تھا جس میں چھ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ اس سے قبل ہسپتالوں، بس سٹینڈز اور پولیس اہلکاروں کو بھی یہ گروہ نشانہ بنا چکا ہے۔ رواں برس جنوری میں اسلامک اسٹیٹ گروپ نے ایرانی ریاست ویریان میں ہونے والے دو خودکش حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی، جن میں 100 کے قریب ایرانی شہری ہلاک ہوئے تھے۔روس کے سرکاری میڈیا کے مطابق گرفتار ہونے والے چاروں افراد کا تعلق تانک سے تھا۔ وسطی ایشیائی ملک تاجکستان۔جو پہلے سوویت یونین کا حصہ تھا۔ گڈ گورننس کی جانب سے دولتِ اسلامیہ پر حملہ کرنے کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ یہ تنظیم دنیا کے بیشتر ممالک کو اپنا دشمن سمجھتی ہے۔ روس، امریکہ، یورپ، یہودی، عیسائی، شیعہ مسلمان اور مسلم اکثریتی ممالک کے حکمران بھی اس کی دشمنی کی فہرست میں شامل ہیں۔اسلامک اسٹیٹ کی روس سے مبینہ دشمنی۔1990-2000 کی دہائی میں چیچنیا کے دارالحکومت میں روسی فوج کی گاڑی یہ ردعمل کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔ حالیہ دنوں میں روس نے شام میں خانہ جنگی میں صدر الاسد کی حمایت کی ہے اور روسی فضائیہ نے وہاں متعدد بمباری کی ہے۔ ان کارروائیوں میں بڑی تعداد میں مبینہ طور پر اسلامک اسٹیٹ اور القاعدہ کے جنگجو مارے گئے۔ یہ روس کو ایک عیسائی ملک سمجھتا ہے اور اس گینگ کی جانب سے ماسکو پر حملے کے بعد پوسٹ کی گئی ویڈیو میں عیسائیوں کو مارنے کی بات کی گئی تھی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ روس اس وقت یوکرین میں الجھا ہوا ہے، ایسی صورتحال میں روس ایک آسان ہدف ہوسکتا ہے جہاں ہتھیار بھی آسانی سے دستیاب ہوں۔ یہ حملہ یوکرین کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟