سی جے آئی کی ٹرولنگ !

چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے ان کے ساتھ حال ہی میں ہوئے اس واقعہ کو یاد کیا جب ایک سماعت کے دوران کمر درد کے سبب انہیں اپنی کرسی ٹھیک کرنے کی وجہ سے تنازعہ کھڑا کیا گیا اور انہیں ٹرول کیا گیا ۔اور شوشل میڈیا پر شاطرانہ رویہ کا سامنا کرنا پڑا ۔بنگلورو میں منعقدہ ایک پروگرام میں انہوں نے جوڈیشیل حکام کے لئے پنشن منیجمنٹ اور زندگی کے طرز و کام کے درمیان توازن بنائے رکھنے کی ضرورت پر زور ڈالا ۔جسٹس چندرچوڑ کرناٹک اسٹیٹ جوڈیشیل آفیسر فیڈریشن کی جانب سے منعقدہ ایک سمپوزیم میں بول رہے تھے ۔انہوں نے کہا عدلیہ جج کے پاس کافی کم وقت ہوتا ہے وہ خاندان اور اپنی دیکھ بھال کے لئے وقت نہیں نکال پانے کے سبب انہیں مناسب طریقے سے کام کرنے کی مشقت کرنی پڑ سکتی ہے ۔چیف جسٹس نے کہا کشیدگی کا اژالہ کرنا اور کام کاج و زندگی کے درمیان تواژن بنانے کی صلاحیت پوری طرح سے انصاف فراہمی سے جڑی ہوئی ہے ۔دوسروں کے زخم بھرنے سے پہلے آ پ کو اپنے زخم بھرنا سیکھنا چاہیے ۔یہ بات جج صاحبان پر بھی لاگو ہوتی ہے ۔انہوں نے جوڈیشیل حکام کے وسیع پیمانے پر منعقدہ سمپوزیم کا افتتاح کرنے کے بعد اپنے ایک حالیہ شخصی تجربہ کو شیئر کیا ۔انہوں نے کہا کہ ایک اہم سماعت کی لائیو اسٹریمنگ کی بنیاد پر حال ہی میں ان کی تنقید کی گئی ۔انہوں نے کہا کہ محض چار پانچ دن پہلے جب میں ایک معاملے کی سماعت کررہا تھا میری پیٹھ میں تھوڑا درد ہورہا تھا اس لئے میں نے بس اتنا کیا تھا کہ اپنی کہنیاں عدالت میں اپنی کرسی پر رکھ دیں اور میں نے کرسی پر اپنی سمت بدل لی ۔انہوں نے کہا کہ شوشل میڈیا پر کئی تبصرے کئے گئے جن میں الزام لگایا گیا کہ چیف جسٹس اتنے مغرور ہیں کہ وہ عدالت میں ایک اہم ترین بحث کے بیچ اٹھ گئے ۔چیف جسٹس نے وضاحت کی کہ انہوں نے آپ کو یہ نہیں بتایا کہ میں نے جو کچھ کیا وہ کرسی پر رخ بدلنے کے لئے کیا تھا ۔24 برسوں سے عدلیہ کام کرنا تھوڑا ایک اچھا تجربہ ہو سکتا ہے ۔جو میں نے کیا ہے ۔انہوں نے کہا میں عدالت سے باہر نہیں گیا میں نے صرف اپنی سمت بدلی لیکن مجھے کافی بدتمیزی ٹرولنگ کا شکار ہونا پڑا ۔لیکن میرا خیال ہے کہ ہمارے کندھے کافی چوڑے ہیں اور ہمارے کام کو لیکر عام لوگوں کا ہم پر پورا بھروسہ ہے ۔سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں ججوں میں یکساں ہی تعلق عدالتوں میں (ججوں کو حفاظت نہیں ملنے ) کے سلسلے میں انہوں نے ایک واردات کو بھی یاد کیا جس میں ایک نوجوان دیوانی جج کو وار کے ایک ممبر نے دھمکی دی تھی کہ اگر انہوں نے اس کے ساتھ ٹھیک برتاو¿ نہیں کیا تو وہ ان کا تبادلہ کروا دے گا ۔کام کاج اور زندگی کے درمیان تواژن اور کشیدگی مینجمنٹ اس دوروزہ سمپوزیم کے موضوعات میں سے ایک تھا ۔اس بارے میں چیف جسٹس نے کہا کشیدگی اژالہ کی صلاحیت ایک جج کی زندگی میں اہم ہے ۔خاص کر ضلع عدالتوں کیلئے انہوں نے کہا کہ عدالتوں میں آنے والے کئی لوگ اپنے ساتھ ہوئی ناانصافی کو لیکر کشیدگی میں رہتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کی شکل میں میں نے بہت سے وکیلوں اور موکلوں کو دیکھا ہے ۔جب وہ عدالت میں اپنی حد پار کرجاتے ہیں اس کا جواب یہ نہیں کہ انہیں توہین عدالت کا نوٹس دلوا دیں ۔یہ سمجھنا ضروری ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ حد کیوں پار کی ہے ؟ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟