کرناٹک کی کرسی پر کون بیٹھے گا؟

کرناٹک میں چناو¿ کمپین میں مشکل سے دس گیارہ دن بچے ہیں اور سیاسی پارٹیوں میں گھمسان اپنے شباب پر ہے ۔ بی جے پی نے پوری طاقت جھونک دی ہے۔پی ایم مودی ،راجناتھ سنگھ ،امت شاہ ،جے پی نڈا اور کئی دیگر مرکزی وزیر اور پارٹی کے نیتاو¿ں نے چناو¿ کمپین میں اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے ۔ وہیں کانگریس کی طرف سے پرینکاگاندھی واڈرا،ملکارجن کھڑگے ، جے بی ایف کی طرف سے ایچ ڈی دیو گوڑا کمپین کو رفتار دے رہے ہیں۔ زہریلے سانپ اور وش کنیا جیسے الفاظ بھی دیگر اشوز کو ہوا دے رہے ہیں۔ اے بی پی سی ووٹر کے تازہ سروے کے مطابق کرناٹک میں کانگریس نمبر ون ہونے جارہی ہے ۔اور اس کے سروے کے مطابق کانگریس کو 40فیصد ووٹ کے ساتھ اسے 107-119کے درمیان سیٹیں مل سکتیں ہیں۔ جبکہ بی جے پی کا ووٹ شیئر 35فیصد ہے اس کے حصے میں 74سے 86سییٹیں آ سکتی ہےں ۔ جبکہ جے ڈی ایس تیسرنمبر پر 17فیصد ووٹ شیئر کے ساتھ 23سے 25سیٹیں لے سکتی ہے۔ بھاجپا اور کانگریس کے سامنے جو چنوتیاں ہیں وہ ایک دم الگ ہیںدونوں پارٹیوں میں سے کسی کی بھی کوئی غلطی ان کے لئے سانپ اور سیڑھی کا کھیل بن سکتی ہے ۔ چناو¿ کے تیسرے دعویداد جنتا دل سیکولر بھاجپا اور کانگریس میں سے کسی کے لڑکھڑانے کا انتظار کر رہی ہے تاکہ وہ کنگ نہ سہی کنگ میکر تو بن سکے ۔ جے ڈی ایس کی خواہش کی تکمیل اس بات پر منحصر کرتی ہے کہ ریاست کی سیاست کے بڑے دعویداروں یعنی کانگریس اور بی جے پی اپنی چنوتیوں کا سامنا کیسے کرتی ہیں۔ اگربھاجپا یا اس کے ممبر اسمبلی اقتدار مخالف لہر و کرپشن کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں تو کانگریس ایسی زمین پر چل رہی ہے جو پوری طرح محفوظ نہیں ہے ۔ کچھ ہفتے پہلے ریاست کے سامنے جتنے متنازعہ معاملے تھے اب اتنے اشو نہیں بچے ہیں۔ مثال کے طور پر ترمیم شدہ ریزرویشن پالیسی کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا گیا ہے کیوں کہ سپریم کورٹ نے اس پر ناراضگی جتائی ہے ۔ حالاںکہ مرکزی وزیر امت شاہ نے کئی جگہوں پر مسلمانوں کیلئے ریزرویشن کو ختم کرنے کو صحیح ٹھہرایا اور تنازعہ میںپھنسانے کیلئے کانگریس کے سامنے گیند ڈال دی ہے ۔ امت شاہ نے ایک ریلی میں یہ بھی کہا کہ اگر کرناٹک میں کانگریس کی سرکار بن جاتی ہے توریاست میں فرقہ وارانہ جھگڑے ہوں گے ۔ حالاںکہ سیاست تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ کرناٹک میں فرقہ وارانہ اشو اس وقت انتہا پر ہے ۔ امت شاہ کے علاوہ باقی لیڈروں کے بیانوںمیں اچانک تبدیلی ہونا کافی اہم ہے ۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ ریاست میں تینوں بڑی پارٹیاں بڑی احتیاط کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ 10مئی کو ہونے والا چناو¿ طے کرے گا کہ اگلے پانچ سال تک کرناٹک میں کون راج کرے گا۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!