آنند موہن کی رہائی پر واویلا!

سابق ایم پی و بہار کے دبنگ لیڈر آنند موہن کی 15سال بعد رہائی پر نہ صر ف بہار بلکہ پورے دیش بھر میں ہنگامہ کھڑا ہوگیا ۔ گوپال گنج کے ڈی ایم جی کرشنا قتل کانڈ میں ملی سزا (14سال) سے ڈیڑھ سال سے زیادہ پچھلی اتوار کو سہرسہ جیل سے باہر نکلے سابق ایم پی آنند موہن نے اس بات سے سرے سے انکار کردیا کے حکمراں جماعت نے چناوی فائدے کیلئے قانون بدل کران کو جیل سے چھڑایا؟ یہ بالکل غلط بات ہے ۔ میری رہائی کی مخالفت کرنے والے دو اصل آئین اور کورٹ کو نظر انداز کررہے ہیں اور اس کی توہین کررہے ہیں۔ خیال رہے کہ بھاجپا و جی کرشنیا کا پریوار آنند موہن کی رہائی کی یہی وجہ بتا رہے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین کی بنیادی روح ،یکسانیت کے حق پر مبنی ہے یہ خاص اور عام میں کوئی فرق نہیں کرتی ۔ ہر عادمی کو چاہے وہ ہارے کی جان کی قیمت کو ایک مانتی ہے ۔ سب کے لئے ایک ہی طرح کا انصاف اور قانون کی بات کرتی ہے۔ لیکن رسمی طور سے ایسا نہیں کہ کسی ریاست میں کوئی 9سال کی سزا کے بعد چھٹا ہے توکہیں 11یا 16سال میں رہا ہوتا ہے۔ یہ ایک اتفاق نہیں ہے ۔سپریم کورٹ مسلسل ریاستوں کو اس میں یکسانیت لانے کی بات کہتی رہی ہے۔ دراصل گوپال گنج کے ضلع مجسٹریٹ ڈی کرشنیا کے قتل میں پہلے پھانسی پھر عمر قید کی سزا کاٹ رہے آنند موہن کو بہار سرکار نے جیل مینو میں تبدیلی کر رہا کیا ہے۔ سرکار نے سرکاری ملازم کی قتل والی دفعہ کو ہٹا دیا ہے جس میں آنند موہن کی رہا ئی ممکن ہو سکی ہے۔ سرکار لاکھ دلیلیں دے کسی بھی شخص کی رہائی جیل میں اس کے چال چلن اور اس کی ڈسپلن کی بنیاد پر طے ہوتی ہے ۔مگر آنند موہن کی ساکھ ریاست میں کیسی رہی ہے یہ حقیقت دنیا جانتی ہے ۔ یہی وجہ کہ ریاست میں اس مسئلے پر سیاست جم کر ہو رہی ہے۔ نکتہ چینی کرنے والوں کی دلیل ہے کہ بدمعاش سے سیاستداں بنے آنند موہن کی رہائی راجپوت برادری کو خوش کرنے کی کوشش ہے جو برسوں سے ان کی رہائی کی مانگ کررہی تھی ۔ دوسری طرف اپوزیشن پارٹیاں خاص طور سے دلت مفادات کی نمائندگی کرنے والوں نے اس فیصلے پر سخت نکتہ چینی کی ہے ۔ان کا دعویٰ ہے کہ یہ انصاف کرکمزور کرتی ہے ۔ اور ذات پات پر مبنی تشدد کے جرائم پیشہ کو ایک خطرناک پیغام بھی جاتا ہے ۔ آنند موہن کی رہائی نے بہار میں بھی مینڈیٹ کو بھی تقسیم کردیا ہے۔ یہ سماج کے کچھ طبقے اسے صلح اور معافی کی نظر میں ایک قدم مانتے ہوئے ان کی رہائی کی حمایت کررہے ہیں وہیں سچائی اور انصاف کے ساتھ دھوکہ اور دلت برادری کے حقوق کی خلاف ورزی کی شکل میں دیکھتے ہیں ۔یہ مسئلہ کچھ زیادہ ہی پولرائز ہو گیا ہے جس میں سبھی کی سیاست تیور سامنے دکھائی دینے لگے ہیں۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟