ایک بار پھر آمنے سامنے !

وزیر قانون کرن ریجیجو نے سنیچر کو پھر سے ججوں کی تقرری کیلئے کالیجیم سسٹم پر نکتہ چینی کی ہے۔یہ کانگریس پارٹی کے دیدہ دلیری کا نتیجہ ہے ایک پروگرام میں ریجیجو نے کہا کہ ہم کالیجیم سسٹم کو فولو کریںگے لیکن ججوں کی تقرری حکم سے نہیں ہو سکتی ۔ یہ پوری طرح انتظامی معاملہ ہے ریجیجو نے پروگرام کے دوران آئینی لکشمن ریکھا کی بھی بات کہی ۔انہوںنے حیرانی جتاتے ہوئے سوال کیا لیکن جج صاحبان انتظامی تقرریوں کا حصہ بنتے ہیں تو عدلیہ کاموں کو کون کرے گا؟ غور طلب ہے کہ سپریم کورٹ نے سرکار کو ہدایت دی ہے کہ وہ نیا قانون بننے تک چیف الیکشن کمشنر اور دیگر چناو¿ کمشنروں کا سلیکشن کر نے کیلئے وزیر اعظم ،بھارت کے چیف جسٹس اور لوک سبھا میں حکمراں پارٹی کی ممبری والی ایک نفری کمیٹی بنائے وہیں انہوںنے دعویٰ کیا کہ کچھ ریٹائرڈ جج اور ورکر ایسا کرنے کی کوشش کر رہے ہیںکہ ہندوستانی عدلیہ اپوزیشن پارٹی کا رول نبھائے انہوںنے کہا کہ یہ بھارت مخالف گروہ کا حصہ ہے ۔ ریجیجو نے کہا کہ کچھ لوگ عدالت میں جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ براہ کرم سرکار پر لگام لگائیں سرکا ر کی پالیسی بدلیں ۔ وہیں بھارت کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے کالیجیم سسٹم کا بچاو¿ کرتے ہوئے کہا کہ ہر سسٹم صحیح نہیں ہے لیکن یہ سب سے اچھا سسٹم ہے جسے ہم نے ڈیولپ کیا ہے ۔ میں اس اشو پر وزیر کے ساتھ الجھنا نہیں چاہتا ہماری الگ الگ رائے ہو سکتی ہے۔ میں ان کی رائے کا احترام کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ ہمارے لئے ان کے من احترام ہے۔انہوںنے یہ بھی کہا کہ معاملوں میں کیسا فیصلہ لینا ہے اس کو لیکر سرکار کی طرف سے بالکل کوئی دباو¿ نہیں ہے۔ جج کی شکل میں اپنے 23سالہ میعاد میں مجھے کسی نے نہیں کہا کہ کس طرح فیصلہ لینا ہے ۔چناو¿ کمیشن کا فیصلہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عدلیہ پر کوئی دباو¿ نہیں ہے میں کسی محکمے کی سربراہی کر رہے کسی معاون ملازم بات کرکے یہ بھی نہیں پوچھوں گا کہ اس معاملے میں کیا چل رہا ہے۔کچھ حدیں ایسی ہوتی ہیںجو ہم اپنے بناتے ہیں ۔ یہ ہماری ٹریننگ کا حصہ ہے ۔عدلیہ کے سامنے 4.32کروڑ معاملے زیر التویٰ ہونے کی چنوتی کی مسئلے پر سی جے آئی نے کہا کہ یہ سچ ہے کہ معاملوں کی ایک بڑی تعداد ہے لیکن یہ انصاف کیلئے عدالتوںمیں اتنا لوگوں کے یقین کو دکھاتا ہے ۔ سوشل میڈیا پر ججوں کے ٹرولنگ کے اشو پر جسٹس چندر چوڑ نے کہا کہ اتیوادی نظریات کے شور سے متاثر نہیں ہونا زیادہ اہم ہے۔میں ٹویٹر نہیں فولو کرتا مجھے لگتا ہے کہ ہمارے لئے یہ اہم ہے کہ ہم دقیہ نوسی نظریات کے شور سے متاثر نہ ہوں ۔مجھے لگتا ہے کہ سوشل میڈیا صرف ایک تکنیک نہیں ہے یہ اس وقت کا حصہ ہے ۔ آج کل یہ چلن ہے کہ عدالت میں کہے جانے والے ہر لفظ کا لائیو ٹویٹ کیا جاتا ہے ۔ اور یہ ہم پر بھی بھاری بوجھ ڈالتاہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!