مظاہرہ جائز لیکن تشدد کا حق نہیں
الہٰ آباد ہائی کورٹ نے شہریت ترمیم قانون کو لے کر ہوئے احتجاجی مظاہرے و تشدد پر سرکاری کارروائی کے خلاف مفاد عامہ کی عرضی پر سماعت کرنے سے انکار کر دیا ہے ۔عدالت کا کہنا تھا کہ جمہوریت میں سرکار کے خلاف احتجاجی آواز اُٹھانے اور مظاہرے کا شہریوں کو بنیادی حق حاصل ہے لیکن یہ دوسروں کے بنیادی حقوق کے بر عکس استعمال نہیں کیا جا سکتا ۔لوگوں کو سڑک پر جلوس نکال کر ریلی یا مظاہرے کرنے کا حق ہے مگر انہیں ٹریفک میں رکاوٹ پیدا کرنے کا حق نہیں ہے ۔ایمبولینس ،فائر سروس وغیرہ ضروری خدمات کو روکا نہیں جا سکتا اگر کوئی تنظیم مظاہرہ کرتی ہے تشدد برپا کرتی ہے تو وہ اپنی جواب دہی سے یہ کہہ کرنہیں بچ سکتی کہ تشدد میں باہری لوگوں کا ہاتھ ہے ۔یہ حکم جسٹس سدھیر اگروال و جسٹس راجیو مشرا کی بنچ نے لکھنﺅ کے وکیل رجت گنگوار کی مفاد عامہ کی عرضی کو مسترد کرتے ہوئے دیا اور صاف کیا کہ ہر ایک دھرنے کے لے احتجاجی مارچ نکالنے والوں کی جواب دہی ہوگی اگر امن و نظام قائم رکھنے کے لئے دفعہ 144نافذ کی گئی ہے تو اس کے جواز کو چنوتی نہیں دی گئی ہے تو پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے کا کو شخص یا کسی گروپ کو حق نہیں ہے ۔آئینی افسر کو قانون نافذ کرنے کے لئے ضروری کارروائی کا پورا حق ہے کورٹ نے کہا کہ عرضی گزار یہ بتانے میں ناکام رہا ہے کہ سرکاری کارروائی اُس کے یا تنظیم کے بنیادی حقوق کے خلاف تھی اس کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جس پر کہا جا سکے کہ سرکاری کارروائی میں شفافیت کی کمی ہے اُدھر الہٰ آباد ہائی کورٹ نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں مظاہرے کے دوران پولیس کارروائی کی جانچ کر رہی قومی انسانی حقوق کمیشن کو ایک ماہ میں اپنی رپورٹ دینے کی ہدایت دی ہے عدالت نے کمیشن کی جانچ کے چلتے ایس آئی ٹی سے معاملے کی جانچ کا حکم دینے سے انکار کر دیا ہے یہ حکم چیف جسٹس گووند ماتھر و جسٹس وویک ورما کی ڈیوژن بنچ نے محمد ایان خان کی عرضی پر دیا ہے ۔سرکار کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ یونیورسٹی میں 26لوگوں کو تشدد کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے ۔پولس نے قانون کے تحت کارروائی کی ہے ۔اس تشدد میں کئی طلباءزخمی ہوئے تھے کورٹ نے کہا کہ کمیشن جانچ کر رہا ہے اور نو جنوری تک اسٹاف کی معرفت عرضی کی فوٹو کاپی کمیشن کو دستیاب کرائیں اور کمیشن اپنی توثیق یا جانچ رپورٹ کورٹ میں پیش کرئے ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں