وزیر اعظم مودی کو کھلا خط لکھنے والوں پر بغاوت کا الزام؟
دیش میں ماب لنچنگ (ہجومی مار پیٹ)کے واقعات پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے وزیر اعظم کو لکھے کھلے خط کو لے کر بہار کے مظفر پور میں 49فنکاروں ،دانشوروں کے خلاف ایک عدالت کے حکم پر بغاوت کا مقدمہ درج ہوا ہے ۔اس کی جانکاری پولس نے دی ہے ۔ضلع پولس افسران کے مطابق یہ معاملہ مقامی عدالت کے حکم پر صدر پولس تھانے میں درج کیا گیا ہے ۔سرکار وکیل ایس کے اوجھا نے چیف چوڈیشل مجسٹریٹ عدالت میں ایک عرضی دائر کی گئی تھی جس پر سماعت کے بعد ان سلیبریٹیز پر ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا گیا ۔اس میں پچاس فنکاروں کے نام ملز م کے طور پر شامل کئے گئے ہیں ۔جس میں ان کے ذریعہ مبنیہ طور پر دیش کی ساکھ کو ملیا میٹ کرنے اور وزیر اعظم کے با اثر پرفارمینس کو کمزور کرنے کی بات کہی گئی ہے ۔اس کے ساتھ ہی عرضیوں میں ان کے ذریعہ علیحدگی پسند کرتوت کی حمایت کرنے کی بات بھی کہی گئی ہے ۔23جولائی کو لکھے گئے اس خط میں ان لوگوں نے مانگ کی کہ ایسے معاملوں میں جلد سے جلد سخت سزا رکھی جائے اداکارہ کونکنا سین ہدایت کار منی رتنم ،اپرنا سین ،شام بینگل رام چندر گپتا اور دیگر ستارروں کے خلاف مقدمہ درج ہونا جمہوری حق پر ایک بڑا داغ ہے ۔حق اور آزادی کو لے کر اکثر پوری دنیا میں ہندوستانی جمہوریت کی مثال دی جاتی ہے ۔ہجومی مار پیٹ پر تشویش جتانے والوں کو اس طرح پہلی بار ملزم مان لینا ایک جمہوری سماج کی شکل میں ہماری ساکھ کو بھاری نقصان پہنچائے گا ۔بھیڑ کے ذریعہ بے قصوروں کو مار دینے کے خلاف آواز اُٹھانا کہاں سے ملک سے بغاوت کا معاملہ بنتا ہے ؟بھیڑ کے تشدد پر تشویش جتانے والوں کو پہلی نظر میں ملزم مان لینا ایک جمہوری سماج میں بھارت کی ساکھ کو بھاری نقصان پہنچے گا ۔آخر بھارت کیسی جمہوریت ہے جس میں کسی برنگ اشو کی طرف توجہ مرکوز کرانا بھی جرم سمجھا جاتا ہے سوال یہ بھی اُٹھتا ہے کہ شہریوں کو دیش کے چیف سے سیدھی بات چیت کر سکیں کیا اتنا حق بھی نہیں ہے ان فنکاروں دانشوروں نے اس طرف پی ایم کی توجہ مرکوز کرانے کی کوشش کی تھی کیا یہ بہتر نہیں ہوتا کہ سرکار اس کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے بتاتی اور وہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لے سرگرم ہے ۔اگست میں دائر میں اس عرضی پر چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ کے حکم پر پچھلے جمعرات کو جو ایف آئی آر درج ہوئی ہے جس میں خط لکھنے والوں پر ملک سے بغاوت گڑبڑ اور امن کو بھنگ کرنے کے ارادے سے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے سے متعلق دفعات لگائی گئی ہیں ۔جب اس پر ہنگامہ کھڑا ہوا تو بہار حکومت کو صفائی دینی پڑی کہ اس کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔سوال عرضی دائر ہونے پر نہیں مقامی عدالت کے ذریعہ اُس کو سماعت کے لئے منظور کرنے پر ہے ۔کیا ایسا کرتے ہوئے ہندوستان کے آئین کے تقاضوں کو دھیان میں رکھا گیا ہے ؟اس کو درست کرنے کے لئے اب بڑی عدالت کو ہی آگے آکر معاملے میں کچھ کرنا ہوگا۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں