ستپال ملک نے ثابت کیا وہ کسی کے ربڑ اسٹامپ نہیں

عام طور پر گورنروں کو مرکز کا ربڑ اسٹامپ کہا جاتا ہے جو ہر اہم ترین فیصلہ مرکز کی رائے کے مطابق کرتے ہیں ۔ان کی تقرری مرکزی سرکار سوچ سمجھ کر کرتی ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر وہ ان کی خواہش کے مطابق چلے لیکن کبھی کبھی ایسے گورنر بھی آجاتے ہیں جو چنوتی کا مقابلہ اپنے ضمیر کی آواز سے کر لیتے ہیں اور ایسا کرنے میں وہ مرکز کی خواہش کو نظرانداز کر ڈالتے ہیں اس لئے اکثر ایسے نیتاﺅں کو گورنر بنایا جا تا ہے جو یا تو ان کی پارٹی کے سنئیر لیڈر ہوں یا پھر بھروسے مند افسر ،جنرل ہوں ۔ایسا کام ہی ہوتا ہے کہ مرکز کسی سیاسی نیتا کو وہ بھی جو اس کی پارٹی کا نہ ہو کو گورنر بنائے لیکن جموں کشمیر میں مرکزی حکومت نے ایسا ہی کیا ہے شری ستپال ملک کو جموں کشمیر کا گورنر بنایا انہوںنے ایک ایسا فیصلہ کیا جس کی مرکز کو کبھی توقع نہیں تھی ۔معاملہ تھا صوبے میں نئی سرکار بنانے کا اور صدر راج ختم کرنے کا ۔مرکز چاہتا تھا کہ صوبے میں پیپلز کانفرنس کے سجاد لون کی قیادت میں سرکار بنے جس کی ہمایت بھاجپا کرے سجاد لون کئی دنوں سے پی ڈی پی کے ممبران اسمبلی کو توڑنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے ۔لیکن گورنر نے نہ تو لون کو چونکایہ بلکہ پی ڈی پی کانگریس اتحاد کو جس کو نیشنل کانفرنس باہر سے ہمایت دینا چاہتی تھی گورنر ستپال ملک نے اتوار کو گوالیر میں منعقدہ پروگرام میں 21نومبر کو اسمبلی بھنگ کرنے کے فیصلے پر اپنا موقوف رکھا ان کے اسمبلی بھنگ کرنے کے بیان پر سیاسی واویلا کھڑا ہونا فطری ہے گورنر نے پہلے یہ کہہ کر سب کو چونکا دیا کہ اگر میں دہلی کی طرف دیکھتا تو مجھے سجاد لون کو وزیر اعلیٰ بنانا پڑتا ایسا کرتا تو تاریخ مجھے بے ایمان کی شکل میں یاد کرتی اور میں بے ایمانی میں تاریخ میں درج نہیں ہونا چاہتا تھا ۔انہوںنے یہ بھی کہا کہ سرکار سوشل میڈیا کے ذریعہ نہیں بنتی جبکہ سجاد لون اور محبوبہ مفتی دونوں نے ان کا سہارا لیا گورنر نے کہا کہ لون کہہ رہے ہیں کہ واٹسپ پر اپنا خط مجھے بھیجا تھا اور محبوبہ نے کہا کہ انہوںنے سرکار بنانے کا دعوی ٹوئٹ کر کے پیش کیا انہوں نے کہا کہ یہ پتہ نہیں تھا کہ سرکاریں واٹسپ کے پیغام پر بنتیں ہیں؟جبکہ سرکار بنانے کا دعوی واٹسپ پر پیش نہیں ہوتا ۔گورنر نے کانگریس اور پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس کی نیت پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اگر انہیں سرکار بنانی ہی تھی تو دن میں ہی راج بھون آکر مجھ سے مل سکتے تھے ا س دن عید کی چھٹی تھی کیا وہ امید کرتے ہیں گورنر فیکس مشین کے پاس بیٹھ کر ان کے فیکس کا انتظار کرتے پی ڈی پی چیف محبوبہ اور نیشنل کانفرنس لیڈر عمر عبداللہ سرکار بنانے پر سنجیدہ ہوتے تو وہ مجھے فون کر سکتے تھے ۔یا خط بھیج سکتے تھے ۔بہر حال گورنر ستپال ملک نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک سیاسی گورنر ہیں کسی پارٹی یا سرکار کے ربڑ اسٹامپ نہیں ہیں ان کے اس فیصلے پر سیاسی واویلا ضرور کھڑا ہوگا۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!