نارتھ کوریا کے ہائیڈروجن بم سے دنیا کی سانسیں تھمی
نارتھ کوریا نے ایتوار کوکہا کہ اس نے اپنے چھٹے نیوکلیائی تجربے میں ہائیڈروجن بم کا دھماکہ کیا۔چھٹا نیوکلیائی تجربہ کرکے نارتھ کوریا نے شمال مشرقی ایشیا میں نیا ڈر اور کوریائی زمیں پر تیسری عالمی جنگ کے آثار پیدا کردئے ہیں۔ ایتوار کو جس میزائل کا تجربہ کیا گیا وہ 6.3 ریختر زلزلہ کی رفتار سے بھی خطرناک ہے۔ یہ نارتھ کوریا کے نیوکلیائی ہتھیاروں کی تباہ کن طاقتوں کی ایک مثال ہے۔ یہ دھماکہ ستمبر 2016 میں کئے گئے دھماکہ سے10 گنا زیادہ طاقتور تھا۔ نارتھ کوریا کا مقصد اتنی طاقت حاصل کرنا ہے تاکہ وہ امریکہ میں کہیں بھی حملہ کرسکے۔ ماہرین کے مطابق تجربہ کے ساتھ نارتھ کوریا یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ اس نے اپنی نیوکلیائی صلاحیت میں بھاری اضافہ کیا ہے۔ اس دھماکہ کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دھماکہ کے بعد خطہ میں 6.3 کی رفتارکا زلزلہ آگیا جس کے جھٹکے ساؤتھ کوریا، جاپان اور روس تک محسوس کئے گئے۔ یہ لاکھوں لوگوں کی جان لے سکتا ہے۔ لگاتار میزائل اور نیوکلیائی ہتھیاروں کے تجربے کے باوجود ایسا نہیں لگتا کہ امریکی صدر کوریا کی جانب سے ہونے والے حملہ کا جواب دینے کے بجائے سیدھے کسی طرح کا حملہ کرنے پر غور کریں گے۔ حالانکہ نارتھ کوریا کے حکام اس بات سے واقف ہوں گے کہ امریکہ پر سیدھا حملہ کرنا خودکشی کرنے سے کم نہیں ہوگا۔ ستمبر 2011 میں عہدہ سنبھالنے کے بعد سے ہی نارتھ کوریا کے حکمراں کم جونگ اپنے کاموں سے خطروں کے کھلاڑی لگتے ہیں جیسے ۔۔۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ناک میں دم کرنا،ساتھ ہی فوجی اصلاحات کے ذریعے وہ اپنے دیش کے لوگوں کی نظر میں خود کو بہتر ایڈمنسٹریٹر دکھانے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ کم جونگ کا یہ اندازہ تمام نارتھ کوریائی لوگوں کے بیچ بہت مقبول ہے خاص کر ان لوگوں کے درمیان جو راجدھانی تیونگ یانگ میں رہتے ہیں۔ امریکی صدر نے لگاتار اس بات کے اشارے دئے ہیں کہ اگر نارتھ کوریا نے اپنی سرگرمیاں نہیں روکیں تو امریکہ فوجی کارروائی کرسکتا ہے۔ جس کے برے نتائج جاپان، ساؤتھ کوریا میں مقیم کروڑوں لوگوں کو بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔آخر کار نارتھ کوریائی چیلنج پر امریکہ کے فوجی رد عمل کا نقصان اور اس کے دو اہم علاقائی ساتھیوں کے لئے قیامت سے کم نہیں ہوگا۔ اور ساتھ ہی اس سے ساؤتھ کوریا میں موجود 28500 امریکی فوجیوں کی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی اس لئے یہ سمجھنا آسان ہے کہ امریکی ڈیفنس سکریٹری جیمس میٹس اور نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر ایم آر میک ماسٹر کیونکہ فوجی کارروائی کے حق میں نہیں ہیں۔ وہ اسے آخری راستہ مانتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی طرف سے جنگ کی وارننگ جیسی باتیں ایک سوچی سمجھی چال بھی ہوسکتی ہے جس کا مقصد تیونگ یانگ کو آگے کسی بھی حرکت سے روکنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی چینی لیڈر شپ نارتھ کوریا کو روکنے کا دباؤ بنانا ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ نارتھ کوریا پر قابو پانے کے لئے سبھی متبادل کھلے ہیں اس میں فوجی کارروائی کے ساتھ چین پر دباؤ بنانے کی حکمت عملی بھی شامل ہے۔ حالانکہ چین نے بھی نارتھ کوریا سے کہا ہے کہ وہ اپنے نیوکلیائی پروگرام سے قدم پیچھے کھینچ ہے لیکن کم جونگ نے اسے نظرانداز کرایتوار کو تجربہ کیا ہے۔ ان سب کے باوجود نارتھ کوریا تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ایسے میں نارتھ کوریا کے لیڈر کم جونگ ان کو کیسے روکا جاسکتا ہے؟ حال ہی میں نارتھ کوریا کے ساتھ اقوام متحدہ نے کئی اقتصادی پابندی بھی لگائی تھیں۔ اس پابندی کی چین نے بھی حمایت کی تھی ۔ نارتھ کوریا اور چین کے درمیان ایمرجنسی جیسی صورتحال جاری ہے۔ ٹرمپ کو لگتا ہے کہ نارتھ کوریا کے مسئلہ کا نپٹارہ چین کے تعاون سے کیاجاسکتا ہے لیکن پاکستان کی طرح چین بھی نارتھ کوریا کے معاملہ میں ڈبل گیم کھیل رہا ہے ایک طرف اس کی پوری مدد کررہا ہے اور دکھاوے کے لئے باقی دنیا سے کم جونگ ان پر کنٹرول کرنے کا ڈھونگ رچتا ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ یہ لڑائی آگے بڑھتی ہے تو پوری دنیا کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں