بھارت کا29واں راجیہ بنا تلنگانہ!
دہائیوں کے سنگھرش کے بعد تلنگانہ نے دیش کے29 ویں راجیہ کے طور پر آخر کار شکل لے ہی لی ہے اور چند دنوں بعدمنقسم آندھرا پردیش کے دوسری ٹکڑے سیماندھرا کو بھی30 ویں راجیہ کا درجہ مل جائے گا۔تلنگانہ راشٹریہ سمیتی(ٹی آر ایس) چیف کے چندر شیکھر راؤ آندھرا پردیش سے الگ ہوکر وجود میں آئے اس نئے راجیہ کے پہلے وزیر اعلی بنے ہیں۔ گورنر ای ایس ایل نرسمہن نے راؤ کے علاوہ ان کے بیٹے کے ۔ ٹی راما راؤ اور بھتیجے ٹی ۔ہریش سمیت11 دیگر کو بھی بطور وزیر حلف دلایا۔اس میں سابق آندھرا پردیش ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کلیان جوتی سین گپتا نے نرسمہن کو صوبے کے پہلے گورنر کے طور پر حلف دلایا۔ قابل ذکر ہے کہ کے۔ چندر شیکھر راؤ کی رہنمائی میں ان کی پارٹی ٹی۔آر۔ ایس تلنگانہ کے لئے طویل جدوجہد کرتی آئی ہے۔ جدوجہد کے دوران ان کے کئی حامیوں کو اپنی جان کی بازی بھی لگانی پڑی تھی۔سمرتھکوں کی اس قربانی کو یاد کرکے سوموار کو پہلے مکھیہ منتری کے طور پر حلف لیتے وقت چندر شیکھر راؤ جذباتی ہوگئے تھے۔ گذشتہ دنوں ودھان سبھا چناؤ میں یہاں119 سیٹوں میں سے67 سیٹیں ٹی آر ایس نے جیتی تھیں۔ اس نئے راجیہ میں 10 ضلع ہیں ان میں حیدر آباد کو چھوڑ کر سبھی9 ضلع پچھڑے ہیں۔ ان کے وکاس کے لئے نئی سرکار کے سامنے بڑی چنوتیاں ہیں۔ مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے نئے وزیر اعلی کو بدھائی دی ہے۔ بدھائی پیغام میں انہوں نے تلنگانہ کے وزیر اعلی کو یقین دلایا ہے کہ مرکزی سرکار نئے راجیہ کو ہر ممکن مدد کرے گی۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی چندر شیکھر راؤ کوبدھائی دی ہے۔ یہ افسوسناک ہے کہ تقسیم کا عمل جس کٹوتا اورآپسی شک کے ماحول میں مکمل ہوا ہے اس میں ان دونوں نئے بنے راجیوں کے لئے مستقبل کا راستہ تشویش بھرا دکھ رہا ہے۔چندر شیکھر راؤ کے حلف لینے کی تقریب میں سیماندھرا کے متوقعہ وزیر اعلی چندرابابو نائیڈو کی غیر موجودگی دونوں راجیوں کے درمیان تنا تنی کے راستے کھول رہی ہے۔تلنگانہ کے سامنے ایک نیامسئلہ بقیہ راجیہ یعنی سیماندھرا پردیش کے ساتھ بہتر تال میل بیٹھانے کا ہے۔ یہ تال میل اس لئے بہت ضروری ہے کیونکہ حیدر آباد کو10 سال تک دونوں راجیوں کی مشترکہ راجدھانی رہنا ہے۔یہ ٹھیک نہیں کہ ملازمین جائیداد،آبی ذرائع وغیرہ کے بٹوارے کو لیکر چندر شیکھر راؤ کی جانب سے غیر رواداری کے رویئے کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔یہ وقت سمجھداری سے کام کرنے کا ہے تاکہ دونوں ہی راجیوں کے مفاد کا تحفظ ہوسکے اور دونوں ہی راجیوں کے لوگوں کی امیدیں پوری ہوسکیں۔اس کیلئے شانتی ،استقلال کے ساتھ ساتھ اچھے انتظامیہ کی ضرورت ہے۔ تلنگانہ میں برسر اقتدارآئی ٹی آر ایس کو یہ سمجھنا ہوگا کہ حکومت کو آندولن کری رویئے کے ساتھ نہیں چلایا جاسکتا۔ ہمارے سامنے عام آدمی پارٹی کی 49 دنوں کی دہلی سرکار کی مثال ہے۔ اس میں شک نہیں کہ پہلے کی منموہن سنگھ سرکار بھی دونوں حصوں میں آئی تلخی کے لئے خاصی ذمہ دار ہے اور اس کا بھرپور خمیازہ اس نے گذشتہ عام چناؤ میں چکایا بھی ہے۔راجیہ کی گدی بھی اس چناؤ میں کانگریس کے ہاتھ سے نکل گئی۔ تلنگانہ راجیہ کے مسئلے پر کانگریس نے جو وویک ہین راجنیتی کا کھیل کھیلا اس نے اس کے پاؤں یکدم ہی اس راجیہ سے اکھڑ گئے ہیں۔ آندھرا کے آدھی صدی سے وجود میں جس پارٹی نے چار دہوں تک حکومت چلائی ہے اس نے اس بار اس کی حالت سچ مچ ہی قابل رحم ہے۔ کون نہیں جانتا کہ کانگریس صدر سونیا گاندھی نے تلنگانہ کو الگ راجیہ بنانے میں اپنے وقار تک کو داؤ پر لگادیا تھا۔ سونیا گاندھی کی وجہ سے ہی آزادی سے ہی چل رہی الگ تلنگانہ کی مانگ پوری ہوپائی اور نئی ریاست میں کانگریس کو اس عام چناؤ میں کل دو پارلیمانی سیٹیں ہی مل سکیں۔ سیماندھرا میں تو کانگریس کا نام لیوا تک ہی نہیں بچا ہے۔ تلنگانہ قیام کے بعد کانگریس میں اپنی پارٹی کوشامل کرنے کا وعدہ کرنے والے چندر شیکھر راؤ تک پلٹی مار گئے ہیں۔ حیرت نہیں کہ آنے والے دنوں میں وہ بھی کیندر کی مودی سرکار کے چکر کاٹتے دکھیں۔ یہ امید کی جانی چاہئے کہ چندر شیکھر راؤ کی سرکار عوام کی امیدوں پر پورا اترے گی اور کسی بھی طبقے کی جانب سے گری ہوئی سیاسی مفاد کو اہمیت نہیں دے گی۔ ہم چندر شیکھر راؤ اورا ن کی پارٹی ٹی آر ایس کو بدھائی دیتے ہیں۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں