آبیل مجھے مار: اروند کیجریوال کا وبال!

عام آدمی پارٹی کے لیڈر اروند کیجریوال نے بدھوارکو جس طرح پٹیالہ ہاؤس میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ گومتی منوچا کی عدالت میں جس طرح کا برتاؤ کیا اس پر ہمیں تو قطعی تعجب نہیں ہے۔ پہلے بتادیں کہ عدالت میں جو کچھ ہوااس سے سبھی باخبر ہیں۔ کیجریوال بدھوار کو ایک ملزم کے طور پر عدالت میں پیش ہوئے۔ بھاجپا کے سابق پردھان نتن گڈکری نے ان پر ہتک عزت کا کیس درج کررکھا ہے۔ گڈکری نے الزام لگایا ہے کہ کیجریوال کی بھارت کے سب سے کرپٹ لوگوں میں نام ہونے اور کیجریوال کے جھوٹے بیانوں سے ان کی ساکھ کو ٹھیس پہنچی ہے۔کیجریوال کے وکیلوں نے اپنے موکل کے ذریعے لگائے گئے الزامات کا نہ تو کوئی جواب دیا اور نہ ہی دلیل میں کوئی ثبوت دئے۔ الٹے مجسٹریٹ سے ضمانت مچلکہ پر اڑ گئے۔ مجسٹریٹ گومتی منوچا کی عدالت میں کیجریوال کی طرف سے سینئر وکیل پرشانت بھوشن و راہل مہرہ نے کہا یہ معاملہ سیاسی ہے اور عام آدمی پارٹی کے اصول کے مطابق ضمانت کے لئے مچلکہ نہیں بھریں گے لیکن اس بات کا حلف نامہ دینے کو تیار ہیں کہ وہ عدالت کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ہر تاریخ پر عدالت میں حاضر ہوں گے۔ اس پراختلاف کرتے ہوئے گڈکری کی طرف سے پیش ہوئیں سینئر وکیل پنکی آنند و اجے دگپال نے کہا کہ قانون میں حلف نامہ دینے کی کوئی نظیر نہیں ہے اور قانون کسی کے لئے بھی الگ نہیں ہوسکتا۔ یہ بات تب سامنے آئی جب عدالت نے کیجریوال سے ضمانت کے لئے 10 ہزار روپے کے نجی مچلکہ جمع کرانے کے لئے کہا جس پر کیجریوال نے مچلکہ بھرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ کوئی مجرم نہیں ہیں کہ مچلکہ بھریں۔ عدالت نے کہا جب آپ ایک آدمی کی بات کرتے ہیں ہم یہ ہی امید کرتے ہیں کہ آپ ایک عام آدمی کی طرح برتاؤ کریں۔عدلیہ کارروائی سب کے لئے یکساں ہونی چاہئے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق اگر کوئی شخص عدالت کی کارروائی کی تعمیل نہیں کرتا تو ان حالات میں عدالت ملزم کو حراست میں بھیجنے پر مجبور ہوتی ہے۔ عدالت نے اپنے تین صفحات پر مبنی فیصلے میں کہا کہ عدالت اس حالت میں خاموش تماشائی بنی نہیں رہ سکتی جب کوئی ملزم کے ذریعے قائم طریقہ کار پر تعمیل نہیں کرنا چاہتا۔ عدالت کا یہ ہی نظریہ تھا کہ مچلکہ بھرنے میں ملزم کو کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہئے کیونکہ پیش معاملے میں 10 ہزار روپے کی رقم جمع کرسکتا ہے۔ اس طرح کیجریوال نے مجسٹریٹ کے سامنے کوئی اور متبادل بھی نہیں چھوڑا۔ انہوں نے مجبوراً کیجریوال کو تہاڑ بھیج دیا۔ تھوک کے چاٹنا، پلٹی کھانا اروند کیجریوال کی خاصیت بن چکی ہے۔ یہ نیا اسٹنٹ یا ڈرامہ آخر کیوں ہورہا ہے؟ عام آدمی پارٹی لیفٹیننٹ گورنر کو اسمبلی بھنگ نہ کرنے دئے جانے کے لئے دئے گئے اپنے ایک خط سے چند گھنٹے بعد ہی پلٹی کھا گئی۔ پہلے تو کیجریوال نے دہلی کی عوام سے معافی مانگی اوربولے کہ وزیر اعلی کے عہدے سے استعفیٰ دینا ان کی غلطی تھی۔ انہوں نے جنتا سے پوچھے بغیر یہ فیصلہ لینا پر افسوس ظاہر کیا اور کہا کہ اب اگلے چناؤ کی تیاری کے دوران وہ ریلیوں کے ذریعے لوگوں تک اپنے جذبے کو پہنچائیں لیکن اس سے پہلے کیجریوال نے دوبارہ دہلی میں سرکار بنانے کی حتی امکان کوشش کی۔اس سلسلے میں انہوں نے نجیب جنگ صاحب کو بھی خط لکھ ڈالا۔ دلیل یہ ہے کہ خط کے بارے میں انہوں نے میڈیا کوجانکاری تک نہیں دی ۔ جب وہ لیفٹیننٹ گورنر سے مل کرنکلے تب میڈیا سے بس اتنا کہا کہ یہ ایک خیر سگالی ملاقات تھی لیکن دیر رات لیفٹیننٹ گورنر کو بھیجا گیاخط لیک ہوگیا تب جاکر کیجریوال کی پول کھلی۔ انہوں نے لیفٹیننٹ گورنر سے اس خط میں مہلت مانگی تھی تاکہ سرکار بنانے کی ان کی کوششیں پروان چڑھ سکیں۔ لیکن کچھ ہی گھنٹوں بعد کیجریوال کو یہ احساس ہوگیا کہ سرکار بنانا ممکن نہیں ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے ہار کر انہوں نے اسمبلی چناؤ کی مانگ کرڈالی۔کئی لوگوں کے ذہن میں سوال اٹھ رہا ہے کہ 40 ہزار روپے مہینے کے مکان میں رہ رہے کیجریوال نے 10 ہزار روپے کا مچلکہ کیوں نہیں بھرا؟ ٹھیک 24 گھنٹے بعد انہوں نے اپنے ساتھیوں جن میں ایک یوگیندر یادوہیں، دفعہ144 توڑنے کے معاملے میں پانچ ہزار روپے کا مچلکہ بھردیا۔کیوں کیجریوال نے جیل جانا منظور کیا؟ حال ہی میں ہوئے لوک سبھا چناؤ میں عام آدمی پارٹی کی کراری ہار ہوئی ہے اور دہلی کے ساتوں سیٹوں پر اسے ہار کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔ کیجریوال کی مقبولیت تیزی سے گھٹ رہی ہے۔ ضمانت نہ لیکر جیل جانا انہوں نے اس لئے چنا ہے کیونکہ پہلی بات تو وہ شہرت کے بھوکے ہیں۔ نریندر مودی نے اسی دن گجرات کے وزیر اعلی کے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا لیکن کیجریوال نے ڈرامہ کرکے اپنے آپ کو چینلوں و پرنٹ میڈیا میں چھائے رہنے کا یہ سہارا ڈھونڈا۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ جیل جاکر جنتا کی ہمدردی حاصل کرنا چاہتے ہیں اورورکروں میں شگوفہ چھوڑ کر جوش بھرنا چاہتے ہیں۔ اروند کیجریوال سیاسی طور سے اتنے برے شاید کبھی نہیں پھنسے ہوں۔ سیاسی گلیاروں میں ہلچل مچانے والے کیجریوال کو لگا یہ اسٹنٹ کرنے سے دہلی میں چناوی فائدہ ہوسکتا ہے۔کیجریوال نے اپنے وکروں سے کہا کہ وہ یہ پیغام دیں کہ کرپشن کے خلاف لڑائی کی وجہ سے ہی کیجریوال کو جیل بھیجا گیا ہے۔ پارٹی کے نیتا مان رہے ہیں کہ اب وہ پھر سے کرپشن کے اشو پر توجہ دینے میں کامیاب ہوں گے جس طریقے سے آپ کے حمایتیوں نے تہاڑ جیل کے باہر ہلڑ بازی کی اس سے صاف ہے یہ سب پری پلان ڈرامہ تھا۔ کیجریوال شہرت کے اتنے بھوکے ہیں کہ تہاڑ جیل میں رات گزارنے کے بعد صبح اٹھتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ اخبار مانگے۔ انتظامیہ کے ذرائع کے مطابق خود کے جیل جانے اور اس کے بعد کی کوریج دیکھنے کو بے چین تھے۔مزیدار بات یہ ہے کہ لوک سبھا چناؤ میں پنجاب سے چار سیٹیں جیتنے والی عام آدمی پارٹی کے کنوینر کیجریوال کو تہاڑ جیل کی جیل نمبر 4 میں رکھا گیا ہے۔ اسی جیل میں جس میں ان کے گورو انا ہزارے کو2011ء میں رکھا گیا تھا۔ یہ پبلسٹی اسٹنٹ بھی ہوسکتا ہے لیکن کیجریوال نے کئی بار کہا ہے کہ وہ بھارت کے آئینی سسٹم کے خلاف ہیں اور پورا ڈھانچہ بدلنے میں بھروسہ کرتے ہیں۔ جب وہ 49 دنوں کے لئے دہلی کے وزیر اعلی تھے تب بھی انہوں نے دفعہ144 توڑ کر دیش کے قانون و نظم کو چیلنج کیا تھا۔ اب بھی اسی سلسلے میں ضمانت نہ لیکر قانون سے سیدھی ٹکر لی ہے۔ انہوں نے خود کہا تھا کہ میں بد امنی پسند ہوں۔ کیجریوال اپنے طے ایجنڈے پر چل رہے ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ جنتا میں وہ بری طرح بے نقاب ہوچکے ہیں۔ ان کا بھروسہ اور سیاسی ساکھ زیرو ہوچکی ہے۔ ایک بار انہوں نے دہلی کے عوام کو بیوقوف بنا دیا لیکن بار بار بیوقوف بننے کے لئے جنتا تیار نہیں ہوگی۔ اس ڈرامے سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔جنتا کا ان سے بھروسہ اور کریز ختم ہوچکا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!