نتیش کا ڈرامہ، مودی کی تنقید بھاری پڑی!
عام چناؤ میں مودی لہر نے جن پارٹیوں کے خواب چکنا چور کردئے ان میں جنتادل یو بھی شامل ہے۔ اسے صرف دو سیٹیں مل سکی ہیں جبکہ پچھلی لوک سبھا میں اس کے پاس20 ایم پی تھے۔ان پٹی ہوئی پارٹیوں میں آج کل استعفے کا دور چل رہا ہے۔ دراصل نتیجوں کی شکل میں آئے مینڈیٹ میں مودی کے تئیں زیادہ عوام میں بھروسہ بڑھا ہے۔ اس سے زیادہ اشارے ان طاقتوں کو مسترد کرنے کے ہیں جو سیکولرازم کی آڑ میں مودی کو دیش کے لئے خطرہ بنا کر پیش کررہی تھیں اس لئے اتنے وسیع مینڈیٹ کے پاس اب ان کے پاس دلیل گڑھنے کے لئے بھی کوئی مسالہ نہیں بچا ہے۔ مودی کی مخالفت والے نتیش کمار بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ انہوں نے ہار کی اخلاقی ذمہ داری لیتے ہوئے بہار کے وزیر اعلی کی کرسی چھوڑدی ہے۔ لوک سبھا چناؤ میں تو نتیش کی جو بھد پٹی وہ تو ہوئی اسمبلی کی پانچ سیٹوں پر ہوئے ضمنی چناؤ میں بھی جنتادل (یو) کو محض ایک سیٹ مل سکی۔ دراصل بھاجپا سے رشتہ توڑنے کے اپنے فیصلے کے سبب لمبے عرصے سے وہ پارٹی کے اندر تنقید کے گھیرے میں تھے۔ سرکار چلانے کے لئے جن آزاد ممبران کی نتیش کمار نے حمایت لی تھی وہ بھی وزارت نہ ملنے سے ان سے ناراض تھے۔ بتایا جاتا ہے پارٹی کا ایک طبقہ بھاجپا کے ساتھ مل کر پھر سرکار بنانے کا خواہش مند ہے۔ رہی صحیح کثر پارٹی صدر شرد یادو نے نتیش کمار کی تنقید کرکے پوری کردی۔استعفے کو بہار کے بھاجپا نیتاؤں اور ان کی ساتھی پارٹی ایل جے پی نے نتیش کمار کے استعفے کو پہلے سے تیار ڈرامہ بتایا۔ یہ صرف جنتادل (یو) نے اپنی لیڈر شپ بچانے کے لئے رچا ہے۔ رام ولاس پاسوان نے دعوی کیا کہ جنتادل( یو) سرکار جلد گر جائے گی اور بہار میں آنے والے مہینوں میں پھر سے چناؤ ہوں گے۔ یہ استعفیٰ ایک ڈرامہ ہے بہار میں لوک سبھا چناؤ میں جنتادل (یو) کے صفائی کے بعد نتیش حکومت خطرے میں تھی۔نتیش کمار ایک اچھے اداکار اور ناٹک باز ہیں۔ وہ لوگوں کا استعمال کرنے کے بعد انہیں الگ کردیتے تھے وہ بغیر اقتدار کے اسی طرح ہوجاتے جیسے بغیر پانی کے مچھلی؟ سوال اٹھتا ہے کہ وہ (نتیش) پارٹی کے صدر نہیں تھے اور چناؤ لوک سبھا کے تھے پھر انہیں یہ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ دراصل نتیش کمار پہلے بھاجپا سے اتحاد توڑنے کا فیصلہ پارٹی کے اندرکئی لوگوں کو پسند نہیں آیا تھا۔ مودی کے خلاف اتنا کچھ بولنے کے بعد اب بطور بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار پردھان منتری مودی کے سامنے کیا منہ لیکر جاتے اس لئے انہوں نے استعفیٰ دیا اور جتن رام مانجھی کو بہار کا وزیر اعلی بنوادیا۔ بھاجپا نے اتحاد ٹوٹنے کے بعد جنتا دل (یو) کی سرکار نازک اکثریت کے سہارے ٹکی ہے ایسے میں پارٹی لالو پرساد یادو کی درپردہ حمایت کو ترجیح دے سکتی ہے۔ دراصل یہ دونوں کی مجبوری ہوگی کیونکہ ابھی دونوں چاہیں گے کہ اسمبلی چناؤ کی نوبت نہ آ پائے۔ بہار میں کراری ہار کے بعد اپنی سرکار گرنے کے ڈر سے نتیش کمار کے استعفیٰ دینے کے پیچھے ان کاگیم ہے۔ ایک ایسے صوبے کا وزیر اعلی ہونا جو اقتصادی اور سماجی طور سے پسماندہ ہے اس کے لئے پریشانی کا سبب بن گیا ہے ان کو مسلسل مرکز کی طرف منہ کھلے کھڑا ہونا پڑتا اور وہ ایسا اس شخص کے آگے نہیں کرنا چاہتے تھے جسے انہیں ووٹ بینک کے سبب بے عزت کیا گیا مطلب پردھان منتری نریندر مودی۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں